صفوان بن سلیم
صفوان بن سلیم | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | صفوان بن سليم |
پیدائش | سنہ 680ء مدینہ منورہ |
وفات | سنہ 750ء (69–70 سال) مدینہ منورہ |
کنیت | أبو عبد الله أو أبو الحارث |
لقب | المدنى القرشى الزهرى مولاهم |
عملی زندگی | |
طبقہ | الطبقة الرابعة، من التابعين |
ابن حجر کی رائے | ثقة عابد رُمِىَ بالقدر |
اس سے روایت کرتے ہیں:
|
|
استاد | حمید بن عبدالرحمن بن عوف |
پیشہ | محدث ، فقیہ |
درستی - ترمیم |
صفوان بن سلیم زہریؒ تابعین میں سے تھے۔
نام ونسب
[ترمیم]صفوان نام،ابو عبد اللہ کنیت،والد کے نام میں اختلاف ہے،بعض سلیم اوربعض سلام لکھتے ہیں،مدینہ کے ممتاز تابعین میں تھے۔
فضل وکمال
[ترمیم]اگرچہ صفوان کا اصل طغرائے کمال ان کا زہد وورع تھا،لیکن فضائل علمی سے بھی وہ تہی دامن نہ تھے،حافظ ذہبی ان کو ثقۃ حجۃ اوراعلام میں لکھتے ہیں ۔ [1]
حدیث
[ترمیم]حدیث میں انھوں نے عبد اللہ بن عمرؓ، انس بن مالکؓ، ابو امامہؓ،سعید بن مسیبؓ عبد الرحمن بن اغنم،ابوسلمہ بن عبد الرحمن،سعید بن سلمہ، عبد اللہ بن سلیمان الاغر،عبد الرحمن ابن سعد اور عطاء بن یسار وغیرہ سے فیض اٹھایا تھا [2] اور زید بن اسلم،ابن منکدر،موسیٰ بن عقبہ،ابن جریج ،یزید بن جبیب ،مالک بن انس،اکابر علما کی بڑی جماعت ان کے تلامذہ میں تھی۔ [3]
فقہ
[ترمیم]فقہ میں بھی انھیں درک تھا اور ان کا شمار مدینۃ الرسول کے فقہا میں تھا (ایضاً) ابن عماد حنبلی انھیں فقیہ القدوہ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ [4]
عبادت وریاضت
[ترمیم]ان کا امتیازی وصف ان کا زہد وورع اورعبادت وریاضت ہے اس کے علاوہ ان کا اورکوئی مشغلہ نہ تھا، احمد بن حنبل فرماتے تھے کہ وہ خدا کے بہترین بندوں میں تھے، ان کے وسیلہ سے پانی کی دعا کی جاتی تھی۔ [5] بڑے سخت عبادتیں کرتے تھے، نیند کے غلبہ کے خوف سے جاڑوں کے موسم میں کھلی چھت پر اورگرمیوں میں بندمکان میں عبادت کرتے تھے کہ سردی اور گرمی کے غلبہ سے نیند نہ آنے پائے، نمازیں پڑھتے پڑھتے دونوں پاؤں سوج جاتے تھے اورتھک کر گرپڑتے تھے [6] سجدوں کی کثرت سے پیشانی زخمی ہو گئی تھی ۔ [7]
اتفاق فی سبیل للہ خدا کی راہ میں انفاق کا یہ حال تھا کہ بدن کے کپڑے تک اتار کر دے دیتے تھے،ایک شب کو مسجد سے نکلے، سردی سخت تھی،مسجد کے باہر ایک آدمی ننگے بدن نظر آیا،صفوان نے اسی وقت اپنے جسم کے کپڑے اتار کر دے دیے۔ [8]
دولت دنیا سے بے نیازی
[ترمیم]استغناء اوربے نیازی کے اس درجہ پر تھے کہ سلاطین اورفرماں روا ان کی خدمت کرنا چاہتے تھے،وہ مگر قبول نہ کرتے تھے،مسجد نبوی میں عبادت کیا کرتے تھے،ایک مرتبہ سلیمان بن عبدالملک مدینہ آیا اورعمر بن عبد العزیزؓ کے ہمراہ مسجد نبوی دیکھنے کے لیے گیا، ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد مقصورہ کا دروازہ کھولا تو اس میں صفوان نظرآئے،سلیمان انھیں پہچانتا نہ تھا، عمر بن عبد العزیز سے پوچھا یہ کون بزرگ ہیں،ان کے بشرہ سے بہتر آثار میں نے نہیں دیکھے،عمرؓ بن عبد العزیز نے کہا امیر المومنین یہ صفوان بن سلیم ہیں، ان کا نام سُن کر اس نے غلام کو پانسو دینار کی تھیلی ان کی خدمت میں پیش کرنے کا حکم دیا،غلام نے لے جاکر پیش کی کہ یہ امیر المومنین کی جانب سے نذر ہے،وہ یہاں موجود ہیں،صفوان نے کہا تم کو دھوکا ہوا ہے کسی اورکے پاس بھیجی ہوگی،غلام نے عرض کیا آپ صفوان نہیں ہیں ؟ فرمایا ہوں تو میں ہی ،غلام نے کہا تو آپ ہی کو دیا ہے،فرمایا جاؤ، دوبارہ پوچھ آؤ، جیسے ہی غلام پوچھنے کے لیے لوٹا، صفوان فوراً جوتا اٹھا کر مسجد سے نکل گئے اورپھر جتنی دیر سلیمان مسجد میں رہا نہ دکھائی دیے۔ [9]
وفات
[ترمیم]132ھ میں وفات پائی۔