مندرجات کا رخ کریں

ابو الاسود الدؤلی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابو الاسود الدؤلی
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 603ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عراق   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 688ء (84–85 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بصرہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات طاعون   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لقب ملك النحو
عملی زندگی
أعمال أمير البصرة
قاضي البصرة
پیشہ ماہرِ لسانیات ،  شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل لسانيات   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابو الاسود الدؤلي (16/603ھ–69/689ھ) کا پورا نام أبو اسود ظالم بن عمرو بن سفيان دوئلی كنانی تھا[2] آپ مخضرم تھے اور امام علی کے اصحاب اور خاص شاگردوں میں سے تھے۔ امام علی نے اس کو عربی گرائمر (عربی زبان کے قواعد نحو اور صرف) اور اعراب لگانے کا علم سکھایا اور اسی لیے علی کا یہ نوکر ان علوم کا بانی کہلاتا ہے۔ انھیں ملک النحو یعنی علم نحو کا شہنشاہ بھی کہا جاتا ہے۔

نام و نسب

[ترمیم]

ابو الاسود الدؤلی کی ولادت ہجرت مدینہ سے 16 سال قبل ہوئی۔[3] علما میں ان کے نام میں اختلاف ملتا ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک ان کا نام ظالم بن عمرو بن ظالم اور کچھ کے نزدیک ظالم بن عمرو بن سفیان ہے۔،[3][4][5] ایک قول کے مطابق عثمان بن عمرو[3][4][5] اور ایک قوم کے مطابق عمو بن ظالم ہے۔[3][4] ایک قول عمرو بن سفیان کا بھی ہے اور ایک قول کے مطابق ان کا نام عویمر بن ظویلم ہے۔[4] ان کے سلسلہ نسب بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک قول کے مطابق ظالم بن عمرو بن سفيان بن جندل بن يعمر بن حلس بن نفاثة بن عدي بن الديل بن بكر بن عبد مناة بن كنانة ہے۔[4][6][7]

ولادت

[ترمیم]

ان کی ولادت بعثت نبوی سے قبل ہوئی 16 سال قبل ہجرت پیدا ہوئے۔ اور وہ اسلام بھی لائے۔[3] مگر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ملاقات اور صحابیت کا شرف حاصل نہیں ہوا۔ لہذا مخضرم شمار ہوتے ہیں۔

حالات

[ترمیم]

وہ علی بن ابی طالب کے خاص اصحاب میں سے تھے اور جنگ جمل، جنگ صفین، جنگ نہروان اور دیگر تمام مواقع میں مولا علی کے ساتھی تھے۔

عہدے

[ترمیم]

خلیفہ چہارم علی ابن ابی طالب کی خلافت کے وقت، ابو الاسود بصرہ میں قاضی تھے اور بصرہ کے امیر عبد اللہ بن عباس کے کاتب تھے۔ ابن عباس کے بصرہ کی امارت چھوڑنے اور زیاد بن ابیہ کو فارس اور کرمان کا گورنر مقرر کرنے کے بعد، امیر المومنین حضرت علی کی خلافت کے آخری سال میں، آپ کو بصرہ کا گورنر مقرر کیا گیا۔[8]

ثقافتی و علمی خدمات

[ترمیم]

چوتھے خلیفہ برحق امیر المومنین علی بن ابی طالب کے زمانہ کے شاعر اور قواعد (گرامر) نویس تھے۔ جب اسلام عرب سے باہر نکل کر عجم میں پھیلنے لگا اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے اور قران کو پرھنے لگے تو عجم کے لیے قران کو ٹھیک طریقے سے پرھنے کا مسئلہ پیدا ہوا لہذا علی بن ابی طالب کے کہنے پر ابو الاسود الدؤلي نے عربی قواعد کی تدوین شروع کی۔ اس طرح وہ عربی قواعد کے بابائے آدم ہوئے۔ چونکہ وہ بصرہ میں رہتے تھے لہذا انھوں عربی قواعد کے مکتب بصرہ کی بھی ابتدا کی۔ بعد میں ایک اور مکتب کوفہ پیدا ہوا اور اس طرح کوفہ و بصرہ عربی قواعد کے دو بڑے متکب فکر بن گئے۔ ابو الاسود الدؤلي نے عربی رسم الخط پر اعراب متعارف کرایا۔ انھوں نے نحو ایجاد کیا اور عربی لسانیات پر پہلی مرتبہ لکھا۔[9] ان سے خلق کثیر نے استفادہ کیا اور انھیں لغت اور نحو کا بانی اور امام مانا۔ ان کے کئی شاگرد ہوئے۔[10]

علی کے پیروکار

[ترمیم]

امام شمس الدین ذہبی اپنی کتاب سیر اعلام النبلا میں لکھتے ہیں؛

وہ کسی حد تک علی بن ابی طالب کے حامی تھے۔ وہ صاحب عقل و رائے تھے۔ وہ اپنے زمانہ کے چنیندہ فقیہ، شاعر، محدث، شہسوار، رئیس، عقلمند، حاضر جواب اور حامی علی بن ابی طالب تھے۔[3]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/102411492 — اخذ شدہ بتاریخ: 13 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: CC0
  2. https://archive.org/stream/WafayatAl-ayantheObituariesOfEminentMenByIbnKhallikan/Vol1/page662
  3. ^ ا ب پ ت ٹ ث
  4. ^ ا ب پ ت ٹ
  5. ^ ا ب إنباہ الرواة على أنباہ النحاة - أخبار أبى الأسود الدؤلىّ (1) آرکائیو شدہ 2018-01-15 بذریعہ وے بیک مشین
  6. أسد الغابة في معرفة الصحابة لابن الأثير الجزري - ظالم بن عمرو آرکائیو شدہ 2018-01-17 بذریعہ وے بیک مشین
  7. إنباہ الرواة على أنباہ النحاة - أخبار أبى الأسود الدؤلىّ (2) آرکائیو شدہ 2018-01-15 بذریعہ وے بیک مشین
  8. "سیمای کارگزاران علیّ بن ابی طالب امیرالمؤمنین (ع) جلد دوم، تالیف : علی اکبر ذاکری"۔ 11 ستمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جنوری 2022 
  9. ابن خلکان۔ Wafaayat al-'Ayaan. vol. 1 p. 663.
  10. M. Mukarram Ahmed۔ Encyclopaedia of Islam. p. 83.