سیف الدین قطز
سیف الدین قطز | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(عربی میں: المظفر سيف الدين قطز) | |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 13ویں صدی سمرقند |
||||||
وفات | 24 اکتوبر 1260 | ||||||
وجہ وفات | سیاسی قتل | ||||||
مدفن | القرافہ | ||||||
قاتل | بیبرس | ||||||
شہریت | سلطنت مملوک | ||||||
مناصب | |||||||
سلطان مصر | |||||||
برسر عہدہ نومبر 1259 – 24 اکتوبر 1260 |
|||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | عسکری قائد ، گورنر | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
لڑائیاں اور جنگیں | ساتویں صلیبی جنگ ، جنگ عین جالوت | ||||||
درستی - ترمیم |
سیف الدین قطز مصر و شام کے بحری مملوک سلطانوں میں، المنصور نورالدین علی کے بعد تیسرے سلطان بنے جنھوں نے 1259ء سے 1260ء تک حکومت کی۔ ان کی قیادت میں بحری مملوکوں نے جنگ عین جالوت میں منگولوں کو فیصلہ کن شکست دی۔ اگرچہ قطز کا دور مختصر تھا۔ وہ اسلامی دنیا میں سب سے زیادہ مقبول مملوک سلطانوں میں سے ایک ہے- انھیں سلطان المظفر کے لقب سے نوازا گیا- جنگ عین جالوت کے بعد مملوک بادشاہ سیف الدین قطز کو بیبرس نے 24 اکتوبر 1260ء میں قتل کروا کے حکومت پر قابض ہوا۔
ابتدائی زندگی
[ترمیم]قطز کی ابتدائی زندگی کافی غیر واضح ہے۔کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ منگولوں کے کسی یلغار میں قطز پکڑا گیا اور ایک مصری غلام تاجر کو شام میں فروخت کیا گیا- اس مصری غلام تاجر نے آگے عز الدین أیبک کو قطز بطور غلام فروخت کیا- بعض ذرائع کے مطابق، قطز نے دعویٰ کیا کہ ان کا اصل نام محمود ابن ممدود تھا اور وہ خوارزم شاہی سلطنت کے حکمران خاندان سے تعلق رکھتے تھے- ان میں سے کسی بات کی تصدیق نہیں کی جا سکتی مگر یہ واضع ہے کہ مملوکوں میں جلد ہی اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے ترقی کرنے لگا اور اعلی عہدوں پر فائض ہوا-
ساتویں صلیبی جنگ میں کردار
[ترمیم]مملوکی انقلاب میں کردار
[ترمیم]عز الدین أیبک نے قطز کو 1252ء میں نائب سلطان مقرر کیا-
بطور نائب سلطان
[ترمیم]بحری مملوک کے دو دھڑوں میں پھوٹ
[ترمیم]أیبک کو صرف ایک مملوک سے ڈر تھا، وہ فارس الدین أقطائی الجمدار تھا جس کے ساتھی رکن الدین بیبرس اور سیف الدین قلاوون تھے- أیبک کے گروہ کو المعزی کہتے تھے- أیبک کو شک تھا کہ أقطائی اس سے اقتدار چھیننا چاہتا ہے اور وہ شک یقین میں بدل گیا جب أقطائی نے قاہرہ کے قلع میں داخل ہونے کا مطالبہ کیا- چنانچہ أیبک نے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور قطز کے ساتھ مل کر أقطائی کے قتل کی سازش کی اور اسے قلعے ميں بلوایا اور مروا دیا- أقطائی کا کٹا سر قلعے سے گرتے ہوئے دیکھ کر اس کے ساتھی اپنی جانیں بچا کر کوئی دمشق، کوئی الکرک یا تو پھر سلاجقہ روم بھاگے- أیبک نے أقطائی کے ساتھیوں کی املاک لوٹی اور اسکندریہ کا ضلع، جو کبھی أقطائی کا تھا، پر قبضہ کر لیا- جو حضرات بھاگنے نہ پائے وہ یا تو قید و بندش کی نظر ہوئے یا پھر تلوار کی-
قتل أیبک کی تفتیش اور نور الدین علی کا سلطان بننا
[ترمیم]جب 1257ء میں شجر الدر نے عز الدین أیبک کو قتل کروا دیا تو قطز نے شجر الدر کو حراست میں لے لیا اور صالحی مملوکوں کی پناہ میں اسے ڈال دیا- قطز نے نور الدین علی، جو أیبک کا 15 سالہ بیٹا تھا، کو سلطان مقرر کیا- نور الدین علی نے شجر الدر کو بے دردی سے قتل کروا دیا-1257ء تا 1259ء قطز ہی بطور نائب سلطان ملک کی باگ ڈور سنبھالتا رہا-
باغیوں سے مقابلہ
[ترمیم]اس دوران قطز الکرک کے المغيث کی بغاوت سے نمٹنے کے لیے روانہ ہوا اور اسے شکست دی-
ہلاکو خان کے منگولوں سے خطرہ
[ترمیم]1258ء میں منگول فوج نے ہلاکو خان کے زیر سایہ بغداد کا محصرہ کیا اور اس کے باشندوں کا قتل عام کیا اور عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کو مار ڈالا۔ اس کے بعد ہلاکو خان نے شام کے ایوبی بادشاہ الناصر صلاح الدين يوسف کو ایک دھمکی آمیز خط لکھا۔ الناصر يوسف نے خلاف توقع اپنے پرانے دشمنوں، یعنی مملوکوں سے مدد کی طلب کی- نائب سلطان قطز اور مصری امرا اس بات سے حیران و پریشان تھے- وہ منگولوں کی بڑھتی طاقت سے واقف بھی تھے اور ان کے ظلم و بربریت سے بھی آشنا ہو چکے تھے- کئی امرا خوف زدہ تھے- نائب سلطان قطز نے سب امرا کو بلا کر فیصلہ کیا کہ اس نازک وقت میں یکجہتی اور مضبوطی کا مظاہرہ کیا جائے اور صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر نور الدین علی کو برطرف کرکے وہ خود نومبر 12، 1259ء میں سلطان بنا-
بطور سلطان
[ترمیم]منگولوں کے خلاف جنگی تیاریاں
[ترمیم]قطز چونکہ ناصر یوسف کے پیغام سے فکر مند تھا اس لیے اس نے فیصلہ کیا کہ اس کی طرف سے پیش قدمی میں کوئی کمی واقع نہ ہو اور مصر سے شام کی جانب فوری طور پر مدد کے لیے جنگی تیاریاں شروع کیں- لیکن اس دوران ہلاکو خان شام کے شہر حلب کے نزدیک پہنچ گیا- الناصر يوسف کے ساتھ ساتھ کئی امرا بھی گھبرا گئے اور وہ منگولوں کے آگے ہتھیار ڈالنے کا سوچنے لگے- مگر وہاں کے پناہ گزین مملوکوں کے سردار رکن الدین بیبرس اس فیصلے کے سخت خلاف تھا اور وہاں سے وہ واپس مصر کی طرف روانہ ہوا جہاں اس کا خیر مقدم کیا گیا- ان حالات میں شام اور کمزور ہو گیا اور اب لڑنے کے قابل نہ رہا جس کی وجہ سے حلب اور دمشق دونوں پر ہلاکو خان نے قبضہ کر لیا اور وہاں کے شہریوں پر انگنت ظلم ڈھائے- الناصر يوسف بے شرمی سے مصر کی طرف بھاگا مگر اسے قطز نے اندر نہ آنے دیا اور سرحد تک اسے روکے رکھا- اس کے امرا اسے ایک کے بعد ایک چھوڑنے لگے اور آخر کار سلطان قطز نے ناصر یوسف کے زیورات اور رقم، جو اس نے اپنی بیوی اور نوکروں کے ساتھ مصر بھیجا تھا، پر قبضے کا حکم دیا اور الناصر يوسف کو گرفتار کرکے ہلاکو خان کے پاس بھیج دیا تاکہ ہلاکو اس بات کو ذہن میں رکھے کہ مملوکوں نے اس کے دشمن کو پناہ نہیں دی اور اسے منگولوں کے حوالے بھی کر دیا اور اس طرح شاید وہ مصر پر حملہ آور نہ ہو-
بدقسمتی سے ہلاکو خان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ اس نے اسلامی تاریخ کا سب سے زیادہ دھمکی بھرا خط قطز کے نام بھیجا-شام اور بغداد میں اسلامی اقتدار کے مراکز کی فتح کے بعد، اسلامی سلطنت کا مرکز مصر منتقل ہوا اور ہلاکو خان کا اگلا ہدف بن گیا۔ قطز پریشان ضرور ہوا لیکن وہ بزدل نہ تھا - اس نے صبر و سنجیدگی سے اپنے امرا سے مشورے کے بعد منگول ایلچیوں کا سر قلم کرکے اعلان جنگ کیا اور باب زويلہ پر ان کے سر لٹکا دیے- منگولوں کے حملہ کرنے کے انتظار کی بجائے، قطز نے فوج کو مصر سے دور مشغول اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ مصر کے دیگر علاقے سے لوگ فرار ہو گئے۔ جیسے مراکش مغرب کی جانب فرار ہو گئے، جبکہ یمنی یمن اور کئی افراد حجاز بھاگ گئے۔
قطز خود الصالحیہ کی طرف روانہ ہوا اور رکن الدین بیبرس کو غزہ بھیجا تاکہ منگول براول دستہ جو وہاں موجود تھا، کو شکست دے کر راستہ صاف کیا جائے- غزہ میں ایک دن گزارنے کے بعد ساحل کے ساتھ ساتھ، قطز نے عکہ تک فوج کی قیادت کی، جو کسی زمانے کے یروشلم صلیبی ریاست کا حصہ تھا مگر اب صرف یہ شہر ہی باقی تھا۔ صلیبی ریاستیں مملوکوں کے روایتی دشمن تھے اور انھیں منگولوں کی طرف سے فرنگی منگول اتحاد کے قیام کے بارے میں رابطہ بھی کیا گیا۔ اس سال تاہم، صلیبی ریاستوں کو منگولوں سے زیادہ خطرہ محسوس ہوا . قطز نے صلیبی ریاستوں کو منگولوں کے خلاف عارضی طور پر فوجی اتحاد کا مشورہ دیا، لیکن عکہ کے فرنگی دونوں فرقوں کے درمیان نہیں آنا چاہتے تھے اور انھوں نے غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کیا۔ تاہم وہ، قطز اور اس کی فوج کو صلیبی علاقے کے ذریعے سفر اور عکہ کی صلیبی گڑھ کے قریب ڈیرہ ڈالنے کی اجازت دینے کو تیار ہو گئے۔ قطز اور اس کی فوج نے تین دن کے لیے وہاں قیام کیا اور جب اسے منگولوں کے دریائے اردن کو تجاوز کرنے کی خبر ملی،تو وہ اور بیبرس عین جالوت کے مقام پر پہنچ گئے-
جنگ عین جالوت
[ترمیم]تفصیلی مضمون کے لیے جنگ عین جالوت پڑھیں
جنگ عین جالوت 3 ستمبر، 1260ء میں لڑی گئی تھی اور نہ صرف اسلامی تاریخ کی سب سے اہم ترین لڑائیوں میں سے ایک ثابت ہوئی بلکہ دنیا کی تاریخ میں ایک اہم موڑ پر یہ جنگ لڑی گئی تھی جب منگول کی بڑھتی فتوحات کو نہ چین نہ وسط ایشیا نہ روس و مشرقی یورپ بلکہ خوارزم، عباسی خلافت اور ایوبی شام بھی نہ روک سکے تھے-
سیف الدین قطز کا قتل
[ترمیم]قطز جب واپس الصالحیہ آیا تو اسے مملوک سازشیوں نے قتل کر دیا- قتل کرنے والوں کے نام تقی الدین أحمد المقریزی کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں- وہ امیر بدر الدین بکتوت الجوکندار المعزی، امیر أنص سلاحدار الأصبہانی، امیر بہادر المعزی، امیر بلبان الہارونی، امیر بلبان الرشیدی، امیر بندوغز الترکی اور امیر بید غان الرکنی تھے- بعض مغربی تاریخ ساز بلا وجہ رکن الدین بیبرس کا نام بھی شامل کرتے ہیں- یہ سچ ضرور ہے کے قتل کی سازش بیبرس کی تھی-مگر کیا بیبرس نے خود اپنے ہاتھوں سے قطز کا قتل کیا کہ نہیں، اس بات کا کوئی حتمی ثبوت یا سراغ تاریخ نے ہم تک نہیں پہنچایا-
مملوک مورخین اس قتل کی سازش کی دو اہم وجوہات ہم تک پہنچاتے ہیں؛
- ایک یہ کے رکن الدین بیبرس اپنے دوست فارس الدین أقطائی الجمدار کی موت کا بد لہ لینا چاہتا تھا-
- دوسری وجہ یہ تھی کہ جنگ عین جالوت کے بعد قطز نے رکن الدین بیبرس کو حلب دینے کا وعدہ کیا تھا مگر وہ اس نے امیر موصل الملک السعید علاءالدین کو دے دیا-
سلطان المظفر سیف الدین قطز کو شام کے قصبے القصير میں پہلے دفن کیا گیا اور بعد میں قاہرہ میں نعش کو لے جا کر دفن کیا گیا- جنگ عین جالوت سے فتح یاب ہوکر رکن الدین بیبرس مصر لوٹ آیا اور قاہرہ میں دھوم دھام سے جشن منایا گیا- ساتھ ہی اس نے نیا سلطان ہونے کا اعلان کیا اور جنگ ٹیکس ختم کر دیا جو قطز نے نافذ کیا تھا اور اس طرح لوگوں کے دل جیت لیے-
قطز نے ایک سال کے لیے مصر پر حکومت کی- انھیں ایک نیک اور ایک انتہائی بہادر سلطان کے طور پر مسلمانوں کے تاریخ دانوں کی طرف سے یاد کیا جاتا رہا ہے- ایک مسجد قطز کے نام سے قاہرہ میں موجود ہے-