سمجھ
سمجھ یا فہم ایک نفسیاتی طریقہ ہے جس سے کوئی مبہم یا مجسم شے جیسے کہ کوئی شخص، صورت حال یا پیام کے بارے میں سوچا جاتا ہے جس کے پہلے سے حاصل کردہ تصوراتی معلومات کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ سمجھ کسی جانکار اور شے کے بیچ ایک ذہنی رشتہ قائم کرتی ہے۔ سمجھ سے مراد یہ ہے کہ معلومات سے جڑی شے کی صلاحیتوں اور خصلتوں کے باہمی ربط کو درجہ اخذ کرنا کہ اس سے ایک دانشمندانہ برتاؤ ابھر کر سامنے آئے۔ [1]
مجسم شے ایسی شے ہے جس کا وجود ہر معمولی عقل رکھنے والے پر بھی ظاہر ہے۔ مثلًا ایک کتاب، میز، اسکول، نقشہ، آدمی، عورت، بچہ وغیرہ۔ اس کی ہیئت مسلمہ ہے اور ہر شخص، یہاں تک کہ ایک نابالغ بچہ اور کم پڑھا لکھا شخص بھی سمجھ سکتا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ مبہم اشیا کی بھی کمی نہیں ہے۔ مثلًا جوانی، بچپن، بڑھاپا، جمہوریت ، آمریت، خوشی، غم، تنہائی، ملنساری، کنجوسی، فراخ دلی، وغیرہ کئی ایسے مبہم اشیا ہیں جو تصورات کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس میں سمجھ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بات مشہور ہے کہ فرانس میں انقلاب کے دوران وہاں کی ملکہ فاقہ کشی سے عدم تجربے کی وجہ سے مکمل طور پر ناواقف تھی۔ چنانچہ جب کچھ لوگوں سے اس سے روٹی کا مطالبہ کیا تو اس کا جواب یہی تھا کہ اگر آپ کے پاس روٹی نہیں ہے تو آپ کو کیک کھانا چاہیے۔ حالانکہ کچھ لوگوں کو اس واقعے کی تاریخیت پر شبہ ہے۔ [2]
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ Carl Bereiter۔ "Education and mind in the Knowledge Age"۔ 25 فروری 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ Did Marie-Antoinette Really Say “Let Them Eat Cake”?