ابن خزیمہ
ابن خزیمہ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1 جنوری 838ء نیشاپور |
تاریخ وفات | 11 فروری 924ء (86 سال) |
شہریت | دولت عباسیہ |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت |
فقہی مسلک | شافعی |
عملی زندگی | |
استاذ | مسلم بن حجاج نیشاپور ، ابو الفضل الرياشی ، اسماعیل بن یحیٰی مُزنی ، محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم |
تلمیذ خاص | ابوبکر القفال الشاشی |
پیشہ | الٰہیات دان ، محدث ، فقیہ |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
شعبۂ عمل | علم حدیث |
کارہائے نمایاں | صحیح ابن خزیمہ |
درستی - ترمیم |
شیخ الاسلام امام ابن خزیمہ (پیدائش: جنوری 838ء— وفات: 14 فروری 924ء) عالم، محدث اور فقیہ تھے۔ اُن کی وجہ ٔ شہرت اُن کی تصنیف صحیح ابن خزیمہ ہے۔
سوانح
[ترمیم]نام و نسب
[ترمیم]امام ابن خزیمہ کا نام محمد ہے، کنیت ابوبکر اور لقب شیخ الاسلام اور امام الآئمہ ہے۔ سلسلہ ٔ نسب یوں ہے: محمد بن اسحاق بن خزیمہ بن مغیرہ بن صالح بن بکر۔ خزیمہ اِن کے دادا کا نام تھا جن سے مشہور ہوئے۔ مؤرخ اسلام علامہ شمس الدین الذہبی نے یہ القابات لکھے ہیں: الحافظ الحجۃ الفقیہ، شیخ الاسلام، امام الآئمہ۔[1]
پیدائش
[ترمیم]امام ابن خزیمہ ماہِ صفر 223ھ مطابق جنوری 838ء میں نیشاپور میں پیدا ہوئے۔
تحصیل علم
[ترمیم]امام ابن خزیمہ چونکہ نیشاپور میں پیدا ہوئے تھے جو علمی و دینی اعتبار سے علم کا مرکز کہلاتا تھا۔ علاوہ ازیں یہ علما کا مسکن بھی تھا۔ امام ابن خزیمہ نے نیشاپور کے اکابر علما سے اکتساب علم کیا۔کم عمری میں مشہور محدث اسحاق بن راہویہ سے احادیث کا سماع بھی کیا ہے لیکن اِن کے حوالے احادیث روایت نہیں کی ہیں، کیونکہ یہ سماع کم عمری کے زمانے کا ہے۔ اولاً اپنے والد اسحاق بن خزیمہ کی ترغیب پر قرآن کریم حفظ کیا اور پھر علم حدیث کی طلب میں نیشاپور سے دوسرے شہروں کی جانب عازم سفر ہوئے۔امام ابن خزیمہ کا دامن علم متقاضیٔ وسعت تھا کہ وہ نیشاپور سے نکل کر دیگر اسلامی بلاد و اَمصار کے ذخیرہ ہائے علم سے خوشہ چینی کریں۔ چنانچہ وہ بڑے ذوق شوق سے شہر رَے، بغداد، کوفہ، بصرہ، بلاد الشام، حجاز، عراق، مصر اور واسط میں علم حاصل کرتے رہے۔ اکابر محدثین عظام سے علم حدیث کا سماع بھی کیا۔ طلب علم کا شوق اِس قدر تھا کہ اُن کے پوتے محمد بن فضل کا بیان ہے کہ: ’’میں نے اپنے دادا (ابن خزیمہ) سے سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے: میں نے امام قتیبہ بن سعید سے اکتساب فیض کرنے کے لیے اپنے والد سے سفر کی اجازت طلب کی تو وہ فرمانے لگے: پہلے قرآن پڑھ لو (یعنی حفظ کرلو)، پھر تمھیں اُن کے پاس جانے کی اجازت دوں گا۔میں نے تھوڑے ہی عرصہ میں قرآن مجید حفظ کر لیا۔ عیدالفطر کے بعد انھوں نے مجھے جانے کی اجازت دے دی۔‘‘
تحصیل علم کے لیے پہلے شہر رَے گئے۔ خود اُن کا اپنا قول ہے کہ: ’’ میں پہلے شہر رَے گیا اور پھر مرو ۔ مرو میں امام ہشیم کے تلمیذ محمد بن ہشام سے ہی سماع کر رہا تھا کہ امام قتیبہ بن سعید کی وفات کی خبر ملی اور یوں میں اُن سے کسب فیض نہ کرسکا۔[2]
علم حدیث میں امام ابن خزیمہ درجہ ٔ امامت پر متمکن ہوئے۔ وہ باکمال محدث کی طرز کی تمام صفات اپنے وجود میں رکھتے تھے جو اکابر محدثین عظام اور نامو ائمہ فن حدیث میں موجود ہوتی ہیں۔ فقہ شافعی کے جامع و مدون امام مزنی (جو امام شافعی کے شاگرد تھے) سے ایک عراقی شخص نے دریافت کیا کہ: جب قرآن مجید نے قتل کی صرف دو ہی صورتیں بیان کی ہیں: عمد، خطا۔ تو آپ تیسری قسم شبہ عمد کو کس طرح عمد مانتے ہیں؟ تو انھوں نے جواب میں ایک حدیث بیان کی۔ اُس نے کہا کہ آپ علی بن زید بن جدعان کی روایت سے استدلال کرتے ہیں۔ یہ سن کر امام مزنی خاموش ہو گئے اور امام ابن خزیمہ نے اُسے جواب دیا کہ: شبہ عمد کی روایات دوسرے سے بھی مروی ہیں۔ عراقی نے کہا: اور کس کے واسطے سے مروی ہیں؟۔ امام ابن خزیمہ نے فرمایا: ایوب سختیانی اور خالد حذا سے۔ اُس نے ایک راوی عقبہ بن اویس کے متعلق شک و تردد کا اِظہار کیا تو آپ نے کہا: وہ ایک بصری شخص ہیں اور ابن سیرین جیسے جلیل القدر بزرگ نے بھی اُن سے روایت کی ہے۔ معترض نے امام مزنی نے عرض کیا: آپ مناظرہ کر رہے ہیں یا یہ؟ انھوں نے فرمایا: ’’یہ احادیث کے بارے میں مجھ سے زیادہ واقف کار ہیں، اِس لیے جب حدیثوں پر گفتگو ہوتی ہے تو میں خاموش رہتا ہوں اور یہ بحث و مناظرہ میں حصہ لیتے ہیں۔[3]
ذہانت
[ترمیم]امام ابن خزیمہ نے حافظہ قوی پایا تھا۔انھوں نے صغر سنی میں ہی قرآن مجید حفظ کر لیا تھا اور پھر اپنے وقت کے نامور محدثین عظام میں شامل ہو گئے۔ آپ سے ذہانت و حافظہ کے قوی ہونے کا پوچھا گیا تو کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: ’’زمزم کا پانی جس مقصد سے پیا جائے تو وہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے، اِس لیے میں نے جب زمزم کا پانی پیا تو میں نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے علم نافع کا سوال کیا تھا۔[4][5]
اساتذہ
[ترمیم]- امام ابن خزیمہ نے علم حدیث و فقہ کی تحصیل جن علما سے کی، وہ یہ ہیں:
اسحاق بن راہویہ، محمد بن حُمَید (محمد بن حُمَید سے بھی روایت کی ہے لیکن کم عمری کے سبب روایت کو نقل نہیں کیا)، محمود بن غیلان، عتبہ بن عبد اللہ المروزی، علی بن حُجر، احمد بن منیع، بشر بن معاذ، ابی کُریب، عبد الجبار بن العلاء، احمد بن ابراہیم الدورقی، یعقوب (احمد بن ابراہیم الدورقی کے بھائی)، اسحاق بن شاہین، عمرو بن علی، زیاد بن ایوب، محمد بن مہران الجمال، ابی سعید الاشج، یوسف بن واضح الہاشمی، محمد بن بشار، محمد بن مثنیٰ، حسین بن حریث، محمد بن عبد الاعلی الصنعانی، محمد بن یحییٰ، احمد بن عبدۃ الضبی، نصر بن علی، محمد بن علی، محمد بن عبد اللہ المخرمی، یونس بن عبد الاعلیٰ، احمد بن عبد الرحمٰن الوہبی، یوسف بن موسیٰ، محمد بن رافع، محمد ابن یحییٰ القطعی، سلم بن جنادہ، یحییٰ بن حکیم، اسماعیل بن بشر بن منصور السلیمی، حسن بن محمد الزعفرانی (تلمیذ امام شافعی)، ہارون بن اسحاق الہمدانی، اسحاق بن موسیٰ الخطمی، محمد بن ابان البلخی۔[6][7]
وفات
[ترمیم]امام ابن خزیمہ کی وفات بروز ہفتہ 2 ذیقعد 311ھ مطابق 14 فروری 924ء کو ہوئی۔تدفین نیشاپور میں کی گئی۔
علمائے اسلام کی آراء
[ترمیم]امام ابن خزیمہ کے معاصرین اور متاخرین علمائے اسلام نے بھی اُن کے متعلق اپنی اپنی آراء بیان کی ہیں:
- شمس الدین الذہبی نے آپ کو الحافظ الکبیر، امام الآئمہ، شیخ الاسلام لکھا ہے۔مزید لکھتے ہیں کہ: ’’آپ کے زمانہ میں خراسان میں امامت فی الحدیث اور حفظ و اِتقان آپ پر ختم ہو گیا۔ آپ اپنے زمانہ میں دریگانہ تھے۔[8]
- ابوعلی نیشاپوری کہتے ہیں کہ: ’’امام ابن خزیمہ کو اپنی احادیث سے یاد کردہ فقہی مسائل اِس طرح یاد تھے جس طرح حافظ کو قرآن کی کوئی سورۃ یاد ہوتی ہے۔ میں نے اُن جیسا کوئی عالم نہیں دیکھا۔[9]
- امام ابوحاتم ابن حبان بُستی کہتے ہیں کہ: ’’میں نے روئے زمین پر بجز امام ابن خزیمہ جیسا کوئی شخص نہیں دیکھا جسے فن حدیث میں اِس قدر مہارت ہو کہ اُسے صحیح الفاظ اور زیاداتِ حدیث اِس طرح یاد ہوں کہ گویا حدیث کی سب کتابیں اُس کے سامنے کھلی پڑی ہیں۔[10]
- امام دارقطنی نے کہا ہے کہ: ’’ ابن خزیمہ پختہ کار اور بے نظیر عالم تھے۔‘‘[11]
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ شمس الدین الذہبی: سیراعلام النبلاء، جلد 14، صفحہ 365۔
- ↑ جلال الدین سیوطی: تذکرۃ الحفاظ، جلد 2، صفحہ 261۔
- ↑ شمس الدین الذہبی: سیراعلام النبلاء، جلد 14، صفحہ 371۔
- ↑ جلال الدین سیوطی: تذکرۃ الحفاظ، جلد 2، صفحہ 260۔
- ↑ شمس الدین الذہبی: سیراعلام النبلاء، جلد 14، صفحہ 370۔
- ↑ شمس الدین الذہبی: سیراعلام النبلاء، جلد 14، صفحہ 365/366۔
- ↑ جلال الدین سیوطی: تذکرۃ الحفاظ، جلد 2، صفحہ 262۔
- ↑ جلال الدین سیوطی: تذکرۃ الحفاظ، جلد 2، صفحہ 261/262۔ جلال الدین سیوطی: تذکرۃ الحفاظ، جلد 2، صفحہ 259۔
- ↑ جلال الدین سیوطی: تذکرۃ الحفاظ، جلد 2، صفحہ 259۔
- ↑ جلال الدین سیوطی: تذکرۃ الحفاظ، جلد 2، صفحہ 261/262۔
- ↑ جلال الدین سیوطی: تذکرۃ الحفاظ، جلد 2، صفحہ 266۔