آخوندزادہ سیف الرحمن
آخوندزادہ سیف الرحمن | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 10 اگست 1925ء کوٹ تحصیل |
تاریخ وفات | 27 جون 2010ء (85 سال) |
مذہب | اسلام |
فقہی مسلک | حنفی فقہ |
اولاد | قاری محمد حبیب جان سیفی |
تعداد اولاد | 13 |
عملی زندگی | |
استاذ | شاہ رسول طالقانی |
پیشہ | عالم |
درستی - ترمیم |
آخوند زادہ سیف الرحمن مبارک سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ، شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کی ذات سے منسوب طریقہ کے ایک اسلامی مذہبی اور روحانی رہنما تھے، جن کو عموما حضور مبارک سرکار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔[1]
تاریخ پیدائش
[ترمیم]ولادت بروز سوموار بمطابق 20 محرم الحرام 1344ھ اور عیسوی سال کے اعتبار سے 10 اگست 1925ء میں ہوئی (یہ تاریخ آپ کے صاحبزادہ احمد سعید یار صاحب نے لکھوائی) جبکہ درۃ البیان سیرت حضرت آخوند زادہ سیف الرحمٰن کے مطابق 1349ھ بمطابق عیسوی 1930ء بنتی ہے۔ آپ کی ولادت افغانستان کے صوبہ ننگر ہار کے ضلع کوٹ، تحصیل قلعہ وال، گاؤں باباکلی میں ہوئی، جو جلال آباد سے تقریباً 20 کلومیٹر ہے۔[2]۔السیف الصارم انہی کے نام سے منسوب اور سلسلہ سیفیہ کا نمائندہ ماہنامہ ہے۔[2]
القاب و خطابات
[ترمیم]امام الشریعت، شیخ الطریقت، مقتدائے اہل حقیقت، معدن معرفت، رہنمائے مذہب اہل سنت، صاحب حُجّتِ قاہرہ، مؤیّد مِلّتِ طاہرہ، مجمع السعادات، مقتدائے صوفیاں، پیشوائے عارفاں، اعلم العلماء، افضل الفضلا، اکمل الکملا، امام العرفاء، شیخ الفقراء، امام العارفین، شیخ السالکین، ، سلطان المتقین، حامیِ دینِ متین، نور بخش قلوبِ مومنین، زہد و اتقا میں یگانہ روزگار اور یکتائے زمانہ، فضیلت پناہ، حقیقت آگاہ، علم و عمل کے شہنشاہ، مجدد عصر رواں، قیوم زماں، محبوب سبحاں[2]
بانی سلسلہ
[ترمیم]آپ تصوف میں سلسلہ سیفیہ کے بانی ہیں جو اہلسنت والجماعت کے حنفی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ کئی غیر مسلموں نے آپ کی تبلیغ سے اسلام قبول کیا۔[3] ان کے نام کی نسبت سے ان کے پیرو کاروں کو سیفی کہا جاتا ہے (سیفی) وہ سلسلہ تصوف ہے جس میں اتباع سنت کی پابندی پربہت زور دیا جاتا ہے جبکہ لطائف[4]، جیسے قلب، روح، سر، خفی، اخفا کی تعلیمات دوران میں ذکر خفی[5] وجد کی کیفیات [4] بے اختیاری میں ایسی کیفیات کا ظاہر ہونا جس سے جسم کانپتا ہے مختلف آوازیں نکلتی ہیں اس سلسلہ کی خاص علامات ہیں۔[3] لاکھوں مریدین، ہزاروں خلفاء اور اولاد مبارکہ آج بھی سلسلہ سیفیہ کی ترویج کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کے زمانے کے بڑے بڑے اکابرین اہلسنت نے ان کی مدح سرائی فرمائی اور آپ کے علم و اخلاص کو سراہا[6]
آبا و اجداد
[ترمیم]آپ کے والدکانام حافظ قاری محمد سرفراز خان ہے۔ دادا کا نام محمد حیدر خان اورپردادا کا نام محمد علی باباہے۔ آپ کا تعلق پشتونوں کے معزز قبیلہ مہمند سے ہے۔ مہمند قبائل افغانستان اور پاکستان میں ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف آباد ہیں۔ پاکستان کے مشہور و معروف قبائلی علاقے مہمند ایجنسی، شبقدراور ضلع چارسدہ کے کچھ علاقوں میں آج بھی مہمند قبائل آباد ہیں جبکہ ڈیورنڈلائن کے اس پار افغانستان میں بھی ننگر ہار کے اکثر علاقوں میں مہمند قبائل بستے ہیں۔[2]
قبیلہ
[ترمیم]آپ مہمند قبائل کی ذیلی شاخ موسیٰ خیل سے تعلق رکھتے ہیں آپ کا خاندان اپنے علاقے کے اہل دین، صاحب ثروت اور اعلیٰ حیثیت کا مالک ہے۔ جس کے پاس قبیلے کی ذیلی شاخ موسیٰ خیل کی سربراہی بھی ہے۔[2]
گاؤں کی وجہ تسمیہ
[ترمیم]آپ کے جد امجد پردادا محمد علی بابا کے نام کی وجہ سے گاؤں کا نام باباکلی پڑ گیا اور آپ کی اولاد کی کثرت اور جائداد و ثروت کی بنیاد پر علاقے کے اس گاؤں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیاجسے بابا کلی پائیں (نیچے والا)اور باباکلی بالا(اوپر والا)کے ناموں سے پہچانا جاتا ہے۔ آپ کے پردادا کی وفات کے بعد آپ کے دادا محمد حیدر خان اپنے قبیلے کی ذیلی شاخ کے سربراہ بن گئے۔[2]
والد
[ترمیم]آپ کے والد قاری سرفراز خان قادری سلسلۂ قادریہ کے ایک بزرگ تھے۔[7]قاری محمد سرفرازخان کو ان کے والد نے دینی علوم سے کے لیے داخل کرایا حفظ قرآن کا شرف حاصل کیا اور ابتدائی کتابیں علما سے پڑھنا بھی شروع کیں لیکن اپنے والد کے انتقال کی وجہ سے انھیں پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے کیوں کہ والد کی جانشینی نے آپ کے کندھوں پر بہت بوجھ ڈال دیا تھا جن میں گھریلو ذمہ داریوں کے علاوہ قبیلے کی سربراہی اور اس کے ساتھ پنچائت کے فیصلے اور دیگر مصروفیات نے انھیں مروجہ علوم کی تکمیل نہ کرنے دی۔[2]
والدہ کی رحلت
[ترمیم]عہد طفلی ہی میں آپ کی والدہ کا انتقال 1357ھ میں ہوا۔ اس وقت والدہ قندوزمیں موجود تھیں روایت کے مطابق جب آپ کی عمر مبارک 12بارہ سال کی تھی کہ جناب کی والدہ اس دار فانی سے پردہ فرما گئیں۔ جب کہ 8 سال کا ذکر بھی ملتا ہے اور یہی اختلاف آپ کی تاریخ پیدائش میں بھی موجود ہے۔ آپ کی والدہ کو (سہ درک ) قندوز میں دفن کیا گیا۔[2]
برادران
[ترمیم]آپ کے چار بھائی ہیں۔
- سب سے بڑے بھائی کا اسم گرامی مولانا عبد الباسط المعروف باچہ لالہ ہے۔ جو آپ کے ابتدائی اساتذہ میں سے بھی ہیں جن سے آپ نے بوستاں تک اسباق پڑھے جن کا وصال ہو چکا ہے۔
- دوسرے بڑے بھائی کا نام نامی مولانا باچہ محمد صادق بھی وصال فرما چکے ہیں۔
- تیسرے آپ سے چھوٹے بھائی فضل الرحمٰن المعروف معاون صاحب تھے جوجہاد افغانستان کے ابتدائی دور میں روسی افواج کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔
- چوتھے سب سے چھوٹے مفتی غلام الرحمٰن المعروف مولوی صاحب حیات ہیں جو جلال آباد میں کوٹ بابا کلی میں اپنی آبائی زمینوں میں کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ درس و تدریس میں مشغول ہیں۔ اور ساتھ ہی صوبہ جلال آباد میں میں صوبائی جج کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔[2]
صاحبزادگان
[ترمیم]1۔ علامہ صاحبزادہ محمد سعید حیدری السیفی صاحب مدظلہ العالی
2۔ شیخ الحدیث آخوند زادہ مولانا محمد حمید جان السیفی مدظلہ العالی
3۔ صاحبزادہ علامہ پیر عبد الباقی السیفی
4۔ علامہ صاحبزادہ محمد حبیب جان السیفی
5۔ علامہ صاحبزادہ پیر احمد سعید یار جان سیفی
6۔ علامہ صاحبزادہ پیر احمد حسین پاچا السیفی
7۔ علامہ صاحبزادہ پیر سیف اللہ سیفی
8۔ صاحبزادہ پیر صفی اللہ سیفی
9۔ علامہ صاحبزادہ پیر نجیب اللہ سیفی
10۔ علامہ صاحبزادہ پیر احمد حسن السیفی
11۔ صاحبزادہ پیر حبیب اللہ سیفی
12۔ صاحبزادہ محمد محسن پاچا السیفی
13۔ صاحبزادہ پیر حسین اللہ سیفی
حصول علم کے مقامات
[ترمیم]آپ نے افغانستان و ہندوستان (موجودہ پاکستان)کے مختلف شہروں میں سفر کرکے دینی علوم کی تحصیل فرمائی آپؒ نے 16بڑے نقلیہ و عقلیہ علوم، ترجمہ قرآن مجید و تفسیر، علم صرف ونحو، علم فقہ، اصول علم معانی وبیان علم ریاضی و تاریخ علم حکمت و فلسفہ علم منطق و عقائد علم تفسیر، اصول تفسیر علم حدیث و اصول حدیث میں استفادہ اور مکمل دسترس حاصل کی۔[8] جن علاقوں میں اس وقت آپ علم حاصل کرنے کے لیے تشریف لے گئے درۃ البیان سیرت حضرت آخوند زادہ سیف الرحمن کے مطابق مندرجہ ذیل ہیں
- ماشو خیل یہ پشاور کے مضافات میں باڑہ کی طرف واقع ہے۔
- شہاب خیل یہ باڑہ کے جنوب میں واقع ہے۔
- بھانہ ماڑی یہ پشاور شہر کے جنوب میں ہے۔
- تہکال پایاں یہ پشاور کے مغرب میں تھا جو اب پشاور شہر کا حصہ بن چکا ہے۔
- چار پریزہ یہ پشاور شہر سے شمال مغرب میں واقع ہے جو پشاور سے چند میل دور ہے۔
- مازو کلی یہ مردان شہر کے مشرق میں چند میل کے فاصلے پرموجود ہے۔[2]
اساتذہ کرام کے اسمائے گرامی
[ترمیم]- آپ کے پہلے استادآپ کے والد حافظ قاری محمد سرفراز خان تھے ان کے علاوہ اساتذہ کرام کے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں
- مولانا محمد آدم خان (امازو گڑھی)
- شیخ القرآن محمد اسلام بابا صاحب( بابا کلی کوٹ)
- شیخ القرآن والحدیث مولانا ولید صاحب صاحب المعروف وزیر ملّا صاحب ؒ( کوٹ حیدر خیل)
- مولوی محمد اسلم صاحب ( کوٹ حیدر خیل)
- مولوی محمد فقیر صاحب سرے غنڈے (فرید کلا جات)
- مولانا محمد حسین صاحب(مترالی گاؤں)
- مولانا عبد الباسط المعروف باچہ لالہ صاحب (بڑے بھائی جن سے آپ نے بوستاں وغیرہ پڑھی)
- سید عبد اﷲ شاہ صاحب ( سید احمد خیل گاؤں )
- مولانا مولوی صاحب لوگر باغ سری پایا ن صاحب(ضلع قندوز)۔[2]
آخوندزادہ کی تحقیق
[ترمیم]آخوند زادہ ایک لقب ہے جو استاد یا معلم کے بیٹے کے لیے بولا جاتا ہے یہ پہلے وسطی ایشیا میں علما کے لیے کہا جاتا تھا جس سے مراد ایک مخصوص دینی منصب ہوتا تھامشرقی ترکستان میں یہ لفظ آفندی (sir)کی جگہ استعمال ہوتا ہے جس سے مراد بلند مرتبہ علما ہوتے ہیں (اردو دائرہ معارف اسلامیہ) تاریخ الاولیاء میں ابو الاسفار علی محمد البلخی تحریر کرتے ہیں۔ ایں لفظ را فارسی آخوند تحریر میکنند وبہ افغانی اخون میباشد وآخند لغتے ست در آخوند کہ بسیار شائع میباشد یہ لفظ فارسی میں آخوند تحریر کیا جاتا ہے اور افغانی زبان میں اسے اخون کہتے ہیں جو کثرت استعمال سے آخوند ہو گیا۔[2]
بیعت
[ترمیم]- آپ نے اپنے وقت کے شیخ شاہ رسول طالقانی کی بیعت کی۔ مرشد کے وصال کے بعد ان کے خلیفہ اعظم مولانا محمد ہاشم سمنگانی کے ہاتھ پر بیعت فرما کر ان کی زیر تربیت رہے۔ مرشد نے آپ کی تربیت فرما کر خلافت مطلقہ عنایت فرمائی۔ محمد ہاشم سمنگانی نے آخوندزادہ سیف الرحمن کے متعلق فرمایا کہ:
” | آخوندزادہ مثل سورج کے ہیں جس طرف بھی جائیں گے، تاریکی کو ختم کریں گے‘‘۔ حضرت مرشد کامل مکمل نے خلافت عنایت فرمائی تو خلافت نامہ پر لکھا ’’جو (آخوندزادہ مبارک) کا مقبول ہے وہ میرا بھی مقبول ہے اور جو ان کا مردود ہے وہ میرا بھی مردود ہے | “ |
۔[9]
عقائد اپنی زبان سے
[ترمیم]کئی مرتبہ ان کے اپنے الفاظ یہ تھے ’’کہ بحمدﷲ میں اﷲ کا عاجز بندہ ہوں کہ تمام سرزمین پر اپنے آپ سے بااعتبار ذوق کوئی مجھے ادنیٰ ترین نظر نہیں آتا اور خاتم النبیین حضرت محمد رسول اﷲﷺ کا امتی ہوں اور حضور اکرمﷺ کی ختم نبوت پر اعتقاد رکھتا ہوں اور فروع و فقہ میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کوفی رحمتہ اﷲ علیہ کا مقلد ہوں اور اصول و عقائد میں اہل سنت و جماعت کے عظیم پیشوا حضرت امام ابو منصور ماتریدی رحمتہ اﷲ علیہ کا تابع ہوں اور تصوف و طریقت میں حضرت خواجہ بزرگ محمد بہا الدین شاہ نقشبند رحمتہ اﷲ علیہ، حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمتہ اﷲ علیہ، حضرت الشیخ سیدنا عبد القادر جیلانی رحمتہ اﷲ علیہ، حضرت شیخ شہاب الدین الصدیقی سہروردی رحمتہ اﷲ علیہ اور حضرت خواجہ سید معین الدین اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ کی تعلیمات کا تابع اور انہی بزرگان دین کا بالواسطہ مرید ہوں ‘‘[10]
اعلیٰحضرت کے متعلق عقیدہ
[ترمیم]حضور مبارک سرکار، فاضل بریلوی پر اپنے تاثرات دیتے ہوئے فرماتے ہیں: اعلیٰحضرت مولانا شاہ احمد رضا خان بریلوی رضی اللّٰہ عنہ ایک ولی کامل، عاشق رسول صلى الله عليه وسلم، بیمثال عالم اور مجاہد تھے۔ وہ امام وقت اور مرد کامل تھے۔ وہ ولایت میں اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ آپ اپنے وقت کے عظیم عالم و فقیہ، بیمثال محدث و مفسر اور جامع المعقول و المنقول تھے۔ میں ان کی شخصیت سے انتہائی متاثر ہوں۔ میں عقیدے (اہلسنت)، قوم (پختون)، مذہب (حنفی) و علاقہ (افغانستان)، الغرض ہر اعتبار سے ان کے موافق ہوں اور میرا ان سے کوئی اختلاف نہیں۔ بلکہ ہمیشہ ان کے فتاویٰ رضويہ سے ہی خوشہ چینی کرتا ہوں۔ [11]
چار سلاسل طریقت
[ترمیم]آپ چاروں سلسلہ ہائے تصوف نقشبندیہ، قادریہ، چشتیہ اور سہروردیہ کے باقاعدہ خلافت و اجازت یافتہ ہیں اور ان سلاسل کے تمام اسباق اپنے مریدین کو درجہ بدرجہ سکھاتے ہیں اور خلافت مطلق انہی خلفا ءکو ملتی ہے جو ان چاروں سلاسل کے تمام اسباق مکمل کر لیں۔ ان سلاسل اربعہ میں وہ خلفاء جن کو باقاعدہ طور پرسند خلافت جاری کی چا چکی ہے ان کی تعداد 40 ہزار سے متجاوزہے۔[12]
خلفائے کرام
[ترمیم]حضور مبارک کے خلفاء بہت سارے ممالک سے تعلق رکھنے والے ہیؔں جن میں خراسان۔افغانستان۔ ازبکستان۔ ایران و عرب ممالک اور پاکستان و آزاد جموں و کشمیر میں دین و روحانیت کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہاں صرف پاکستان میں کچھ مشہور خلفائے کرام کے نام درج ذیل ہیں۔
- پیر سید نور علی شاہ گیلانی۔ تاروجبہ پشاور
- پیر سید زاہد حسین شاہ سیفی - پشاور
- محمد شاہ روحانی۔ پشاور
- صوفی آزاد خان۔ پشاور
- حبیب الرحمن۔ پشاور
- مفتی غلام فرید ھزاروی۔ پنجاب
- ڈاکٹر مفتی محمد عابد حسین رضوی۔ لاہور
- میاں محمد حنفی سیفی۔ راوی ریان لاہور
- پیر سید عمیر علی شاہ زنجانی۔ لاہور
- سید عمر آغا۔ لاہور
- صوفی گلزار احمد۔ لاہور
- میجر غلام محمد ساہیوال
- صوفی عبد الشکور۔ راولپنڈی
- صوفی غلام مرتضی سیفی۔ گجرات
- صوفی مزمل۔ فیصل آباد
- صوفی عبد الحمید۔ فیصل آباد
- سید عمر دراز ۔کراچی۔ سندھ
- مولانا سید احمد علی شاہ۔ کراچی
- حاجی صوفی نسیم اللہ۔ ڈیرہ غازی خاں
- مولانا لعل رحمن۔ سرحد
- مولانا محمد امین اللہ
- مولانا جبرائیل آمین نوری سیفی ۔
- مولانا سید جعفر پاچا۔ اٹک
- صوفی عبد القیوم درویش ہری پور سرحد
- مولانا محمد امین۔المعروف وزیر۔ سرحد
- مولانا عبد الشکور۔کوئٹہ بلوچستان
- صوفی جان محمد ۔ کوئٹہ
- مولانا محمد وسیم مردان
- مولانا پیر سید ہارون علی شاہ گیلانی سیفی۔ تاروجبہ
- مولانا ضیاء اللہ۔باجوڑا ایجنسی
- پیر رحمت خان۔سرحد
- مفتی احمد الدین توگیری
- مولانا فیض اللہ۔وزیرستان
- مفتی بشیر احمد۔گجرات
- ڈاکڑ سید عبد الاحد شاہ۔سوات
- صوفی عبد المنان۔جہلم
- ڈاکر ریاض احمد۔لاہور
- مولانا سرفراز احمد۔ قصور
- مولانا محمد صادق۔ نارووال۔
وصال
[ترمیم]آخوند زادہ سیف الرحمن مبارک کی وفات 27 جون بروز اتوار 2010ء بمطابق 15 رجب 1431ھ کو ہوئی۔[13]آپ کا مزار مرکزی آستانہ عالیہ نقشبندیہ سیفیہ، فقیر آباد شریف، لکھو ڈھیر، لاہور، صوبہ پنجاب، پاکستان میں ہے۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 20 نومبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2014
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ماہنامہ السیف الصارم فروی 2009 ادارہ محمدیہ سیفیہ روای ریان لاہور
- ^ ا ب Ken Lizzio, Ph.D.، Ritual and Charisma in Naqshbandi Sufi Mysticism page 16
- ^ ا ب تحفہ نقشبندیہ شیخ محمد بن سلیمان بغدادی صفحہ71 دارالاخلاص مرکز تحقیق اسلامی لاہور
- ↑ تحفہ نقشبندیہ شیخ محمد بن سلیمان بغدادی صفحہ76 دارالاخلاص مرکز تحقیق اسلامی لاہور
- ↑ "Welcome sunniforum.net – BlueHost.com"۔ 14 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 دسمبر 2014
- ↑ Quarterly Anwar-e-Riza, 3rd Quarter, 2008 (سہ ماہی، انوار رضا، 2008 كا تيسرا شمارہ)
- ↑ سلسلہ سیفیہ کے سربراہ۔۔۔۔۔۔ تحریر :ڈاکٹر غلام مرتضیٰ محمدی سیفی « Daily Saltanat Online Edition
- ↑ بدرۃ البیان فی سیرت آخوند زادہ سیف الرحمن صفحہ 57مطبوعہ المکتبۃ الرحیمیہ پشاور
- ↑ "پیر طریقت علامہ پیر سیف الرحمن علیہ الرحمہ ایک عہد ساز شخصیت Pioneers of Islamic Beliefs And Protection. Islamic Magazine Tahaffuz Karachi, پاکستان"۔ 24 فروری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جنوری 2015
- ↑ سہ ماہی انوار رضا (جوہر آباد) از محبوب الرسول قادری، حضرت آخوند زادہ مبارک نمبر
- ↑ سہ ماہی انوار رضا جوہر آباد صفحہ 84 حضرت آخوند زادہ مبارک نمبر
- ↑ روزنامہ خبریں 30جون 2010