0% found this document useful (0 votes)
31 views10 pages

Islamiyat Assignment

islamiyat assingment

Uploaded by

jashaneeid
Copyright
© © All Rights Reserved
We take content rights seriously. If you suspect this is your content, claim it here.
Available Formats
Download as DOCX, PDF, TXT or read online on Scribd
0% found this document useful (0 votes)
31 views10 pages

Islamiyat Assignment

islamiyat assingment

Uploaded by

jashaneeid
Copyright
© © All Rights Reserved
We take content rights seriously. If you suspect this is your content, claim it here.
Available Formats
Download as DOCX, PDF, TXT or read online on Scribd
You are on page 1/ 10

LAHORE GARRISON UNIVERSITY

Assignment
Islamic Studies

Name: M.Fezan

Roll no: 466

Section: L

Semester: 2th

Submitted to: Dr. Hafiz Muhammad Mudassir


‫اسالمی نظام حکومت‬
‫‪ .1‬لغوی معنی‬
‫سیاسی نظام کے لغوی معنی "نظم و نسق" یا "نظام حکومت" کے ہیں۔ اس میں ملک کے نظم و نسق کو چالنے‬
‫کے لیے اصول‪ ،‬قوانین‪ ،‬اور طریقہ کار شامل ہوتے ہیں۔‬
‫‪ .2‬اسالمی تعریف‬
‫اسلامی نظام حکومت سے مراد ایک ایسا نظام حکومت ہے جس میں شریعت اسلامی کی پابندی کی جاتی ہے‪،‬‬
‫جہاں عدل و انصاف کو قائم رکھا جاتا ہے‪ ،‬اور مسلمانوں کی فلاح و‬
‫بہبود کو یقینی بنایا جاتا ہے۔‬

‫‪ .3‬قرآنی حوال‪:‬‬
‫سورہ شور ٰی کی آیت ‪ 38‬میں فرمایا گیا ہے‪:‬‬
‫" َوا َّل ِذي َن ا ْس َت َجا ُبوا ِل َر ِّب ِه ْم َو َأ َقا ُموا ال َّص َلا َة َو َأ ْم ُر ُه ْم ُشو َر ٰى َب ْي َن ُه ْم َو ِم َّما َر َز ْق َنا ُه ْم‬
‫ُي ن ِف ُق و َن"‬

‫ترجمہ‪:‬‬

‫"اور جو اپنے رب کی بات قبول کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور اپنے معاملات آپس کے مشورے سے‬
‫چلاتے ہیں اور جو ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔")‪(1‬‬

‫وضاحت‪:‬‬

‫شورٰی کا مطلب‬
‫اس آیت مبارکہ میں اللہ تعال ٰی نے ان لوگوں کی خصوصیات بیان کی ہیں جو سچے مومن ہیں اور اسلامی نظام‬
‫حکومت کی بنیاد رکھتے ہیں۔ یہاں مشورے (شور ٰی) کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ شور ٰی کا مطلب ہے کہ‬
‫معاملات کو مشاورت سے حل کرنا اور اجتماعی فیصلے کرنا۔‬

‫بنیادی اصول‬
‫اسلامی نظام حکومت میں مشاورت ایک بنیادی اصول ہے۔ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی فیصلے کرنے میں‬
‫صرف ایک شخص کی رائے پر انحصار نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ مشورے کے ذریعے اجتماعی عقل و دانش سے‬
‫فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں حکمرانوں کو اپنی رعایا کے ساتھ‬
‫معاملات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے تاکہ بہترین فیصلے کیے جا سکیں جو عوام کے مفاد میں ہوں۔‬

‫عبادات کی پابندی‬

‫‪ 1‬القران‪42:38 :‬‬
‫نماز قائم کرنے کا ذکر بھی اس آیت میں آیا ہے‪ ،‬جو اس بات کی علامت ہے کہ ایک اسلامی معاشرہ میں عبادات‬
‫کی پابندی اور اللہ سے تعلق کی مضبوطی کو برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ نماز قائم کرنے والے لوگ اللہ سے ڈرتے‬
‫ہیں اور اس کے حکم کو مانتے ہیں‪ ،‬اس لیے ان کے فیصلے بھی انصاف اور عدل پر مبنی ہوتے ہیں۔‬

‫فالح و بہبود‬
‫مزید بر آں‪ ،‬جو کچھ اللہ نے دیا ہے‪ ،‬اس میں سے خرچ کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ اسلامی معاشرتی نظام کی طرف‬
‫اشارہ ہے جہاں زکوة اور صدقات کے ذریعے معاشرتی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ اس طرح اسلامی نظام‬
‫حکومت نہ صرف مشاورت اور عدل پر مبنی ہوتا ہے بلکہ اس میں مالیاتی انصاف بھی شامل ہوتا ہے‪ ،‬تاکہ معاشرے‬
‫کے ہر فرد کو‬
‫بنیادی ضروریات فراہم کی جا سکیں۔‬

‫‪ .4‬حدیث‪:‬‬
‫نبی کریم ﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫" تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے‬
‫گا۔")‪(2‬‬

‫وضاحت‪:‬‬
‫رعایا کے حقوق‬
‫یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ حکمرانوں کو اپنی رعایا کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ ان کے ذمہ یہ فرض ہے کہ وہ‬
‫اپنی رعایا کے لیے عدل و انصاف قائم کریں اور ان کی ضروریات کو پورا کریں۔ حدیث میں 'نگہبان' کا لفظ استعمال‬
‫ہوا ہے‪ ،‬جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جیسے ایک چرواہا اپنی بھیڑوں کی حفاظت کرتا ہے‪ ،‬اسی طرح ہر‬
‫شخص کو اپنی زیر نگہداشت افراد کی حفاظت اور ان کے حقوق کی پاسداری کرنی چاہیے۔‬

‫امن و انصاف‬
‫یہ ذمہ داری صرف حکمرانوں پر ہی نہیں بلکہ ہر اس شخص پر بھی عائد ہوتی ہے جو کسی نہ کسی صورت میں‬
‫دوسروں کی نگہداشت کرتا ہے‪ ،‬چاہے وہ والدین ہوں‪ ،‬استاد ہوں‪ ،‬یا کوئی بھی دیگر افراد۔ ہر شخص کو اپنی ذمہ‬
‫داریوں کا احساس ہونا چاہیے اور انہیں بہترین طریقے سے نبھانا چاہیے۔ اس طرح معاشرے میں امن و انصاف قائم ہو‬
‫سکتا ہے اور ہر فرد کو اس کے حقوق مل سکتے ہیں۔‬

‫‪ .5‬اسلامی تاریخ‪:‬‬

‫صحیح بخاری‪ ،‬کتاب األحکام‪ ،‬باب قول النبی صلى الله عليه وسلم‪" :‬کلکم راٍع‬
‫‪2‬‬

‫وکلکم مسؤول عن رعیته"‪ ،‬حدیث نمبر ‪135‬‬


‫اسلامی تاریخ میں خلافت راشدہ اور عمر بن عبدالعزیز کے دور کو عدل و انصاف کی بلند ترین مثالیں مانا جاتا ہے‪،‬‬
‫جہاں حکمرانوں نے قر آن و سنت کے روشنی میں حکومت کی‬
‫اصولوں کو عمل میں لاتے ہوئے عوام کی بہتری اور فلاح کے لیے کام کیا۔‬

‫خلافت راشدہ‪:‬‬
‫خلافت راشدہ وہ دور ہے جب اسلامی حکومت کی بنیادیں رکھی گئیں اور اسلامی نظام حکومت کی مثالیں قائم کی‬
‫گئیں۔‬
‫یہ دور پہلے چار خلیفہ حضرت ابو بکر‪ ،‬حضرت عمر‪ ،‬حضرت عثمان‪ ،‬اور حضرت علی (رضی اللہ عنہم) کے دور کو‬
‫شامل کرتا ہے۔ ان خلفاء نے قر آن و سنت کو ہدایت بنایا اور ان کے فیصلے ان اصولوں پر مبنی تھے۔ عدلیہ کو‬
‫مستحکم کیا گیا اور حکمرانی عوام کے حقوق اور مفادات کے لیے کرتے رہے۔‬

‫حضرت ابو بکر صدیق (‪(634-632‬‬

‫حضرت ابو بکر صدی ؓق نے سب سے پہلے خلافت کی ذمہ داری سنبھالی۔ آپ کا دور حکومت مختصر تھا مگر انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔‬

‫مرتدین کی جنگ‪ :‬حضرت ابو بک ؓر نے اسلامی ریاست کو مستحکم کرنے کے لئے مرتدین کے خلاف جنگ کی اور‬ ‫•‬
‫اسلامی اتحاد کو برقرار رکھا۔‬
‫قرآن کی تدوین‪ :‬آپ نے قر آن کریم کی تدوین کا آغاز کیا تاکہ اسلامی تعلیمات محفوظ رہیں۔‬ ‫•‬
‫حضرت ابو بکر صدی ؓق کا قول‪:‬‬

‫رسول‬ ‫نیں ہوں‪ ،‬لیکن اللہاور اس کے‬


‫بترین شخص ہ‬ ‫"میں تم پر حکومت کرنےواال ہ‬
‫کے طریقوں کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کروں گا۔ اگر میں صحیح راستے پر چلوں تو‬
‫سدهاکر د" و(‪( )3‬خطبٔہ خلافت)‬
‫غلطیکروںتو مجه ی‬

‫حضرت ابو بکر صدی ؓق کے اس قول سے ان کی عاجزی اور اخلاص کا اظہار ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی خلافت کے آغاز میں ہی اپنی کمزوریوں کا‬
‫اعت راف کیا اور عوام کو اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصولوں کے مطابق حکومت کریں گے۔‬
‫اس قول سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی اصلاح کے لئے عوام کی رہنمائی کو بھی اہم سمجھتے تھے‪ ،‬جو کہ ایک حکمران کی اعل ٰی صفت ہے۔‬

‫ؓق‪)634-644‬‬
‫فاروؓق (‬
‫حضرت عمر‬

‫حضرت عمر فارو ؓق کا دور حکومت اسلامی تاریخ کا اہم ترین دور مانا جاتا ہے۔‬

‫عدالتی نظام‪ :‬آپ نے عدالتی نظام کو مضبوط کیا اور قاضیوں کی تقرری کی۔‬ ‫‪‬‬
‫انتظامی اصلاحات‪ :‬مختلف صوبوں میں گورنروں کی تقرری اور انتظامی اصلاحات کیں۔‬ ‫‪‬‬
‫" بیت المال‪ :‬بیت المال قائم کیا جو کہ سرکاری خزانہ تھا اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال‬ ‫‪‬‬
‫ہوتا تھا۔‬

‫‪ 3‬محمد بن جریر الطبری ‪,‬تاریخ الطبری ‪, 2‬صفحات‪353-354 :‬‬


‫حضرت عمر بن خطا ؓب کا قول‪" :‬اگر ایک کتا بھی دریائے فرات کے کنارے بھوکا مر گیا تو عمر اس کا‬
‫ذمہ دار ہو گا"۔)‪(4‬‬

‫حضرت عمر فارو ؓق کے اس قول سے ان کی حکمرانی میں عدل و انصاف اور عوام کی فلاح و بہبود کے بارے میں‬
‫ان کی گہری فکر کا عکاس ہے۔ ان کا یہ قول اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایک حکمران کو اپنی رعایا کے ہر‬
‫فرد کی‪ ،‬چاہے وہ انسان ہو یا جانور‪ ،‬فلاح و بہبود کا خیال رکھنا چاہئے۔ حضرت عم ؓر نے اپنی حکومت میں‬
‫معاشرتی انصاف کو فروغ دیا اور اس بات کی کوشش کی کہ معاشرے کے ہر طبقے کو انصاف ملے۔‬

‫حضرت عثمان بن عفا ؓن (‪)644-656‬‬

‫حضرت عثمان بن عفا ؓن نے خلافت کے دوران کئی اہم کام کئے۔‬

‫قرآنکینسخبندی‪ :‬آپ نے قر آن کریم کے مختلف نسخوں کو یکجا کیا اور ایک معیاری نسخہ تیار‬ ‫‪‬‬
‫کرایا۔‬
‫انتظامی اصلاحات‪ :‬آپ نے مختلف صوبوں میں انتظامی اصلاحات کیں۔‬ ‫‪‬‬

‫حضرت عثمان بن عفا ؓن کا قول‪ " :‬اللہ نے تمہیں دنیاوی دولت اس لیے نہیں دی کہ تم اسے جمع کرتے‬
‫‪5‬‬
‫رہو‪ ،‬بلکہ اس لیے دی ہے کہ تم اسے نیک اعمال میں خرچ کرو۔"‬

‫حضرت عثمان بن عفا ؓن کے اس قول سے ان کی سخاوت اور دین پروری کا اظہار ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی دولت کو‬
‫دین اسلام کی خدمت میں خرچ کیا اور یہ باور کرایا کہ دنیاوی دولت کا صحیح استعمال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا‬
‫ہے۔ ان کا یہ قول آج بھی مسلمانوں کے لئے ایک سبق ہے کہ مال و دولت کو جمع کرنے کی بجائے نیک کاموں‬
‫میں خرچ کرنا چاہئے۔‬

‫ؓب‪)656-661‬‬
‫طالؓب (‬
‫حضرت علی بن ابی‬

‫حضرت علی بن ابی طال ؓب کا دور حکومت بھی اہمیت کا حامل ہے۔‬

‫عدل و انصاف‪ :‬آپ نے عدل و انصاف کو فروغ دیا اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کیا۔‬ ‫‪‬‬
‫فتنوں کا مقابلہ‪ :‬آپ نے مختلف فتنوں کا سامنا کیا اور امت کو متحد رکھنے کی کوشش کی۔‬ ‫‪‬‬
‫حضرت علی بن ابی طال ؓب کا قول‪" :‬لوگوں کے ساته ویسے ہی رہو جیسے تم چاہتے ہو کہ لوگ‬ ‫‪‬‬
‫تمہارے ساته رہیں۔”(‪)6‬‬

‫حضرت علی بن ابی طال ؓب کا یہ قول حکمرانی اور عوامی سلوک کے بارے میں ان کی گہری بصیرت کو ظاہر کرتا‬
‫ہے۔ اس قول کا مفہوم یہ ہے کہ حکمران کو اپنی رعایا کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرنا چاہئے جیسا کہ وہ خود‬
‫اپنے لئے پسند کرتا ہے۔‬

‫‪ 4‬شبلی نعمانی‪ ,‬الفاروق ‪ 2,‬صفحہ ‪239‬‬


‫‪ 5‬حافظ عبدالمنعم خان ‪,‬مسند احمد‪ ،‬جلد ‪ ،6‬صفحہ ‪366‬‬
‫‪ 6‬نہج البلاغہ‪ ،‬حکمت ‪105‬‬
‫‪6.‬اسلامی اصول‪:‬‬

‫اسلامی حکومت کے اصولوں میں عدل و انصاف‪ ،‬مشاورت‪ ،‬مساوات‪ ،‬اور جواب دہی شامل ہیں۔ یہ اصول قر آن و سنت کی تعلیمات پر‬
‫مبنی ہیں اور اسلامی تاریخ میں خلفائے راشدین‪ ،‬فقہاء‪ ،‬علماء کرام‪ ،‬اور صحابہ کرام کی مثالوں میں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔‬

‫عدل و انصاف‬ ‫‪.1‬‬


‫عدل و انصاف اسلامی تعلیمات کا ایک بنیادی رکن ہے۔ قر آن مجید اور حدیث نبوی ﷺ میں عدل و‬
‫انصاف کی بہت سی آیات اور احادیث آمریت کی ہیں جو حکام کو انصاف کرنے کی ہدایت دیتی ہیں۔‬
‫مثل ًا‪ ،‬قر آن میں فرمایا گیا ہے‪:‬‬
‫" ِإ َّن ال َّل َه َي ْأ ُم ُر ِبا ْل َع ْد ِل َوا ْل ِإ ْح َسا ِن"‬
‫ترجمہ‪" :‬بیشک اللہ عدل اور احسان کے لیے حکم دیتا ہے۔‬

‫حضرت سعد بن ابی وقا ؓص کی قیادت میں جنگ قادسیہ کی فتح اسلامی تاریخ کا ایک سنہری باب‬
‫ہے۔)‪(7‬‬
‫ان کی عدل و انصاف پر مبنی قیادت نے نہ صرف اسلامی فوج کو فتح دلائی بلکہ فارس کے عوام کے دل‬
‫بھی جیت لیے۔ ان کی یہ کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلامی اصولوں پر مبنی حکمرانی کس طرح فتح‬
‫اور امن کا باعث بنتی ہے۔‬

‫مساوات‪:‬‬ ‫‪.2‬‬
‫اسلام میں مساوات کا تصور انسانی حقوق اور امتیازات کے بارے میں ہے۔ اسلامی اصولات میں ہر شخص کو‬
‫برابر حقوق اور فرصتوں کا حصہ مانا جاتا ہے‪ ،‬بغیر کسی نوعیت کی جنسی‪ ،‬نسلی‪ ،‬یا اقتصادی تفریق کے۔‬

‫قر آن مجید میں مساوات کے متعلق بھی اہم آیات ہیں۔ مثل ًا‪ ،‬سورۃ الحجرات کی آیت نمبر ‪ 13‬میں اللہ تعال ٰی‬
‫فرماتے ہیں‬
‫َيا َأ ُّي َها ال َّنا ُس ِإ َّنا َخ َل ْق َنا ُكم ِّمن َذ َك ٍر َو ُأن َث ٰى َو َج َع ْل َنا ُك ْم ُش ُعو ًبا َو َق َبا ِئ َل ِل َت َعا َر ُفوا ۚ ِإ َّن َأ ْك َر َم ُك ْم ِعن َد ال َّل ِه‬
‫َأ‬
‫ْتَق اُكْم‬
‫ترجمہ‪" :‬اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبائل میں تقسیم کیا تاکہ تم‬
‫ایک دوسرے کو پہچانو۔ بیشک اللہ کے نظر میں سب سے عزیز وہ ہے جو اتقی ہو۔‬

‫شورٰی‪:‬‬ ‫‪.3‬‬
‫شور ٰی اسلامی حکومتی نظام اور سماجی نظم و نسق کا ایک اہم اصول ہے۔ قر آن مجید میں بھی شور ٰی کے‬
‫بارے میں واضح ہدایات ہیں‪ ،‬جیسے کہ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ‪ 159‬جہاں اللہ تعال ٰی فرماتے ہیں‪:‬‬
‫" َو َشا ِو ْر ُه ْم ِفي ا ْل َأ ْم ِر"‬

‫‪ 7‬الطبری‪ ،‬محمد بن جریر‪ .‬تاریخ الطبری‪ .‬دار الفکر‪ ،‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ ،‬جلد ‪ ،15‬صفح‬
‫‪35۰‬‬
‫ترجمہ‪ :‬اور اپنے معاملات میں ان سے مشورہ کرو۔‬

‫جواب دی‬ ‫‪.4‬‬


‫اسلام میں ہر شخص کو اپنے عمل اور فیصلوں کے لیے جواب دینے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ حکمرانوں کی‬
‫امانت داری‪ ،‬عدل و انصاف کی بنیاد ہے جو ان کو عوام کے حقوق کی حفاظت اور معاشرتی بہبود کے لیے‬
‫ضروری بناتی ہے۔‬

‫قر آن مجید میں امانت داری اور جواب دہی کے بہت سے اصولات موجود ہیں۔ مثل ًا‪ ،‬سورۃ النساء کی آیت نمبر‬
‫‪ 58‬جہاں اللہ تعال ٰی فرماتے ہیں‬
‫"ِإَّن الَّلَه َيْأُم ُر ُكْم َأن ُتَؤ ُّدوا ا َم اَناِت ِإَلٰى ْهِلَه ا"‬
‫َأ‬ ‫َأْل‬
‫ترجمہ‪ :‬بیشک اللہ تم سے حکم دیتا ہے کہ تم امانتوں کو ان کے حقوقداروں تک پہنچاؤ۔‬

‫‪ .7‬غیر اسلامی رجحانات‪:‬‬


‫‪ .1‬آ م ر ی ت ‪:‬‬
‫‪ -‬اسلامی نظام حکومت میں مشورے اور عدل کا حکم ہے‪ ،‬جبکہ آمریت میں عوامی رائے کی اہمیت نہیں‬
‫ہوتی اور ظلم و ستم کا دور دورہ ہوتا ہے۔‬
‫حدیث‪ :‬حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‪" :‬مسلمانوں کے معاملات کا حاکم وہی شخص ہو‬
‫سکتا ہے جسے ان کی اکثریت نے چن لیا ہو۔" )‪(8‬‬

‫آمریت کا نظام‬
‫آمریت کا نظام اسلامی حکومت کے اصولوں کے برعکس ہے۔ اسلامی نظام حکومت میں مشاورت (شور ٰی) اور‬
‫عدل و انصاف کا خاص حکم ہے‪ ،‬جبکہ آمریت میں حکمران کی مرضی اور ذاتی فیصلے ہی مقدم ہوتے ہیں‪،‬‬
‫اور عوامی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ظلم و ستم اور ناانصافی کا دور دورہ ہوتا‬
‫ہے۔‬

‫کرپشن‪:‬‬ ‫‪.2‬‬

‫کرپشن کی تعریف‬

‫‪ 8‬ابن ماج‪ ،‬کتاب األحكام‪ ،‬حدیث شمار ‪309‬‬


‫کرپشن ایک غیر اخلاقی عمل ہے جس میں حکمران یا عوام کے لوگ غیر قانونی طریقے سے اپنے فائدے کے‬
‫لیے رشوت لیتے ہیں۔ یہ ایک سنگین معاشرتی‪ ،‬اقتصادی‪ ،‬اور سیاسی مسئلہ ہے جو ممالک کے ترقی اور‬
‫انصاف میں بڑا رکن بن جاتا ہے۔‬

‫رجحانات‪:‬‬

‫کرپشن کے اثرات‪ :‬کرپشن معاشرتی عدل و انصاف کو متاثر کرتی ہے اور عوام کے حقوق کو کمزور‬ ‫‪‬‬
‫کرتی ہے۔ یہ معاشرتی ترقی کو روک دینے والا عامل ہے اور دولت کی منصفانہ تقسیم میں رکاوٹ پیش آتی‬
‫ہے۔‬
‫کرپشن کی بدولت قانون کا بگاڑ‪ :‬رشوت اور کرپشن کی بنا پر قانون اور انصاف کے نظام کو متاثر‬ ‫‪‬‬
‫کیا جاتا ہے‪ ،‬جس سے عوام کا اعتماد اور قانونی نظام پر دھبہ آتا ہے۔‬
‫معیشتی نقصانات‪ :‬کرپشن اور رشوت کے بنا پر معیشتی نظام پر بھی بڑا اثر پڑتا ہے جس‬ ‫‪‬‬
‫سے ملکوں کے وسائل چوری اور عدم ترقی میں رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔‬

‫طبقاتی تقسیم‬ ‫‪.3‬‬

‫طبقاتی نظام کی تعریف‬

‫طبقاتی تقسیم وہ نظام ہے جس میں معاشرت کے افراد طبقات یا اقسام میں تقسیم ہوتے ہیں جہاں ہر طبقے کے‬
‫افراد کے حقوق‪ ،‬امتیازات‪ ،‬اور مواقع مختلف ہوتے ہیں۔ اس نظام میں عدالتی‪ ،‬اقتصادی‪ ،‬اور سماجی تفاوتیں‬
‫پائی جاتی ہیں۔‬

‫حدیث‪ :‬حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‪" :‬کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو‬
‫عربی پر‪ ،‬کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر فضیلت نہیں ہے‪ ،‬سوائے تقو ٰی کے۔" )‪(9‬‬

‫رجحانات‪:‬‬

‫عدالت کی عدم پائیداری‪ :‬طبقاتی نظام میں عدالت کی عدم پائیداری پائی جاتی ہے‬ ‫‪‬‬
‫جہاں غنی اور قومی حکمرانوں کے لئے عدلیہ کی فیصلوں پر انکشاف کی ممکنات کم ہوتی ہیں۔‬
‫تعلیمی امکانات کی فرق‪ :‬طبقاتی نظام میں تعلیمی امکانات کی فرق سے عوام کے بیچ معیشتی اور‬ ‫‪‬‬
‫تعلیمی اختلافات بڑھتے ہیں۔‬
‫معاشرتی نمائندگی میں کمی‪ :‬طبقاتی تقسیم سے معاشرتی نمائندگی میں بھی تواتر آتا ہے‪ ،‬جہاں‬ ‫‪‬‬
‫غنی طبقے کے لوگوں کی مشکلات اور مفادات ادارے میں زیادہ سننے جاتے ہیں۔‬

‫غیر اسلامی رجحانات جیسے کرپشن اور رشوت‪ ،‬اور طبقاتی تقسیم‪ ،‬انسانی حقوق انصافاور معاشرتی ترقی کے‬
‫لحاظ سے بڑے چیلنجز ہیں۔ یہ مسائل معاشرتی سلامتی اور ترقی کے راستے میں رکاوٹیں سازگار کرتے ہیں جو‬
‫حکومت‪ ،‬سماج‪ ،‬اور فرد کی برداشت نہیں کر سکتے‪.‬‬

‫صحیح البخاری‪ ،‬کتاب ال أدب‪ ،‬حدیث شمارہ ‪1638‬‬ ‫‪9‬‬


‫اسلامی سیاسی نظام میں آج کل کے سیاسی مسائل کے حل‪:‬‬

‫اسلامی سیاسی نظام میں آج کل کے مسائل کے حل کے لیے کچھ بنیادی اصول اور اقدامات موجود ہیں جو‬
‫اسلامی تعلیمات اور خلافت کے نظام پر مبنی ہیں۔ یہ نظام عدل‪ ،‬مساوات‪ ،‬اور اخلاقی اصولوں پر مبنی ہے۔‬

‫انتخابات اور حکومتی تبدیلی ‪:‬اسلامی سیاسی نظام میں خلیفہ یا حکمران کا‬ ‫‪‬‬
‫انتخاب مشورے (شور ٰی) کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ شور ٰی کا مطلب ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے‬
‫مشورے سے خلیفہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ اسلامی نظام میں حکمران کو جواب دہ بنایا جاتا ہے اور اس کا‬
‫محاسبہ کیا جاتا ہے۔ خلیفہ کو عوام کی خدمت اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہوتا ہے۔‬
‫" َو َأ ْم ُر ُه ْم ُشو َر ٰى َب ْي َن ُه ْم"‬
‫ترجمہ”‪ :‬اور ان کے معاملات باہمی مشورے سے طے پاتے ہیں”‬

‫مہنگائی اور معیشت ‪:‬اسلامی نظام میں زکاة اور صدقات کا نظام ہے جو مال کی تقسیم میں عدل کو‬ ‫‪‬‬
‫یقینی بناتا ہے۔ اسلامی معیشت میں سود کی ممانعت ہے‪ ،‬جو معاشی عدم مساوات کو کم کرتا ہے۔‬
‫اسلامی معیشت میں دولت کی گردش کو یقینی بنانے کے لیے وقف اور اوقاف کے ادارے قائم کیے جاتے‬
‫ہیں۔‬
‫َو َأ ِقي ُموا ال َّص َلا َة َو آ ُتوا ال َّز َكا َة‬
‫ترجمہ " ‪:‬نماز قائم کرو اور زکاة ادا کرو۔"‬

‫جنگ اور تنازعہ زدہ علاقے ‪:‬اسلامی نظام میں جنگ کے اصول اور قوانین موجود ہیں جو بے گناہوں کی‬ ‫‪‬‬
‫حفاظت اور انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بناتے ہیں۔ اسلامی نظام میں امن و امان اور انصاف کو‬
‫یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی معاہدات اور سفارتکاری کو فروغ دیا جاتا ہے۔‬
‫" َو ِإن َج َن ُحوا ِلل َّس ْل ِم َفا ْج َن ْح َل َها"‬
‫ترجمہ‪" :‬اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی اس کی طرف جھک جاؤ۔"‬

‫نتیج‬

‫اسلامی سیاسی نظام میں موجود بنیادی اصول اور اقدامات آج کل کے مسائل کے حل کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم‬
‫کرتے ہیں۔ یہ نظام عدل‪ ،‬مساوات اور اخلاقی اصولوں پر مبنی ہے‪ ،‬جو کہ اسلامی تعلیمات اور خلافت کے نظام کی‬
‫بنیاد پر استوار ہے۔‬

‫سب سے پہلے‪ ،‬اسلامی سیاسی نظام میں حکمران کا انتخاب مشورے (شور ٰی) کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ یہ ایک‬
‫جمہوری عمل ہے جہاں عوام کے منتخب نمائندے مشورے کے ذریعے خلیفہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ‬
‫ہے کہ حکمران کی تقرری میں عوام کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے اور حکمران عوام کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے۔‬
‫اس سے حکمران کی خود مختاری محدود ہو جاتی ہے اور وہ عوام کی خدمت اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے ذمہ‬
‫دار ہوتا ہے۔‬
‫دوسرا اہم اصول زکاة اور صدقات کا نظام ہے‪ ،‬جو مال کی تقسیم میں عدل کو یقینی بناتا ہے۔ یہ نظام غربت اور‬
‫معاشی نابرابری کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اسلامی معیشت میں سود کی ممانعت ہے‪ ،‬جو معاشی عدم‬
‫مساوات کو کم کرتی ہے اور دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بناتی ہے۔ وقف اور اوقاف کے ادارے بھی دولت کی‬
‫گردش اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‬

‫اسلامی نظام حکومت میں عوام کے حقوق کی حفاظت کی جاتی ہے اور امانت داری کے اصولوں پر عمل کیا جاتا‬
‫ہے۔ خلافت راشدہ کے دور میں حکمرانوں نے عدل و انصاف کو قائم رکھا اور عوام کے حقوق کی حفاظت کی۔ اس‬
‫دور میں حکمرانوں کی زندگی عوام کے لیے مثالی نمونہ تھی‪ ،‬جہاں آمریت اور کرپشن جیسے غیر اسلامی رجحانات‬
‫کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔‬

‫آج کل کے مسائل جیسے آمریت‪ ،‬کرپشن‪ ،‬اور معاشرتی ناانصافیوں کا حل اسلامی نظام میں مضمر ہے۔ اگر اسلامی‬
‫اصولوں کو صحیح معنوں میں اپنایا جائے تو یہ نظام معاشرتی انصاف‪ ،‬معاشی عدل‪ ،‬اور عمومی فلاح و بہبود کو یقینی‬
‫بنا سکتا ہے۔ اسلامی سیاسی نظام میں عدل‪ ،‬مساوات‪ ،‬اور اخلاقی اصولوں کی پابندی سے ایک مثالی معاشرہ قائم‬
‫کیا جا سکتا ہے جہاں ہر فرد کو اس کے حقوق ملتے ہیں اور ہر فرد اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتا ہے۔‬

You might also like