ٹیسٹ ٹیوب بے بی
ٹیسٹ ٹیوب بے بی ایک طریقہ علاج ہے، جب کسی مرد یا عورت میں کسی نقص یا پیچیدگی کی وجہ سے مرد کا سپرم عورت کے ایگز تک نہ پہنچ سکے اور اس کی وجہ سے قدرتی طور پر بچے کی پیدائش ممکن نہ ہو تو عورت کے ایگز اور مرد کے سپرمز کو لیبارٹری میں ملا دیا جاتا ہے، یہ عام حمل کی طرح نشو و نما پاتا ہے اور نو ماہ کے بعد بچے کی پیدائش ہوتی ہے۔
تاریخ
[ترمیم]- دنیا کا پہلا ٹیسٹ ٹیوب بچہ برطانیہ میں ہوا تھا، لوگوں نے اس کو سچ ماننے سے انکار کر دیا اور اسں پر بہت تنقید کی گئی
- انڈیا کا پہلا ٹیسٹ ٹیوب بچہ پیدا کرنے والے ڈاکٹر سبھاش مکھوپادھیائے نے تو مسلسل تنقید اور ہراساں کیے جانے کے بعد تنگ آ کر بالآخر خود کشی ہی کر لی۔
- آسٹریلیا میں دنیا کا تیسرا ٹیسٹ ٹیوب بچہ پیدا ہوا تھا
- پاکستان کا پہلا ٹیسٹ ٹیوب بچہ پیدا ہوا ہے تو بچے کے والد نے ڈاکٹر سے آ کر کہا کہ ڈاکٹر صاحب یہ خبر پڑھ کر میرا باپ (بچے کا دادا) پوچھ رہا تھا کہ یہ حرام کام تم نے تو نہیں کیا
- ڈاکٹر راشد کے ٹیسٹ ٹیوب بے بی علاج کے نتیجے میں جب پہلا حمل ہوا تو علما نے اس کے خلاف میڈیا میں بیانات جاری کیے اور اسے حرام اور امریکی سازش قرار دیا۔
ڈاکٹر راشد نے ان علما جنھوں نے تنقید کی تھی کے پتے نکلوائے اور ہر ایک کے پاس جا کر پوچھا کہ آیا وہ اس عمل کے بارے میں جانتے ہیں بھی یا نہیں تو ان انھیں معلوم ہوا کہ وہ اس سے متعلق آگاہی نہیں رکھتے۔
وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں بائی پاس نیا نیا شروع ہوا تھا تو میں نے ان علما سے کہا کہ اگر مرد کے دل کی نالیوں میں موجود خلل کو دور کرنے کے لیے دل کا بائی پاس ہو سکتا ہے تو عورت کی بچہ دانی میں موجود خلل کو دور کرنے کے لیے بھی تو بائی پاس ہو سکتا ہے؟ جس پر ان علما کو میری بات سمجھ میں آئی۔[1]
اسلامی نقطہ نظر
[ترمیم]پاکستانی شرعی عدالت کے سنائے گئے ایک فیصلے کے مطابق، ’’اگر بچے کی پیدائش کی وجہ بننے والا سپرم اس کے قانونی والد ہی کا ہو اور بیضہ اس کی والدہ کا، جو متعلقہ مرد کی بیوی ہو، تو ایسی صورت میں طبی طریقہء کار سے مصنوعی حمل ٹھہرانے کے بعد اگر ایمبریو دوبارہ اس بچے کی حقیقی والدہ ہی کے رحم میں رکھا جائے، تو یہ طبی عمل مذہبی حوالے سے بھی قانون کے مطابق اور جائز ہو گا۔‘‘[2]
وفاقی شرعی عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی پیدائش کے لیے بیضہ اور سپرم میں سے دونوں یا کوئی ایک بھی متعلقہ جوڑے کے علاوہ کسی دوسرے مرد یا عورت کا ہو، تو ایسی صورت میں کسی ٹیسٹ ٹیوب بچے کی پیدائش اخلاقی طور پر ’غلط، ناجائز اور غیر اسلامی‘ ہو گی۔
سنہ 1978 میں جب دنیا کا پہلا ٹیسٹ ٹیوب بچہ پیدا ہوا تو 1980 میں مصر کی جامعہ الازہر نے اس حوالے سے فتویٰ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اگر آئی وی ایف میں استعمال ہونے والے ایگز بیوی اور سپرمز شوہر کے ہوں تو اس سے پیدا ہونے والا بچہ جائز اور شریعت کے مطابق ہو گا۔
جب پاکستان میں پہلے ٹیسٹ ٹیوب بچے کی پیدائش ہوئی تو اگرچہ بہت سے علما نے انفرادی طور پر اس پر اعتراضات اٹھائے لیکن جامعہ الازہر کے اس فتویٰ کی بنیاد پر ریاستی سطح پر آئی وی ایف سے متعلق 2015 تک کوئی اعتراضات سامنے نہیں آئے۔