ثور انقلاب
ثور انقلاب | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
سلسلہ سرد جنگ،افغانستان میں سوویت جنگ | |||||||
ثور انقلاب کے بعد کابل میں صدارتی محل کا بیرونی دروازہ | |||||||
| |||||||
مُحارِب | |||||||
پی ڈی پی افغانستان | |||||||
کمان دار اور رہنما | |||||||
سردار داؤد خان ⚔ عبد القادر نورستانی |
محمد اسلم وطنجار[1] عبد القادر نور محمد ترہ کئی[1] حفیظ اللہ امین ببرک کارمل[1] |
27-28 اپریل 1978ء کو افغانستان میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان کی زیر قیادت فوجی انقلاب کے ذریعے اس وقت کے صدر داؤد خان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا، اسے تاریخ میں ثور انقلاب یا اپریل انقلاب کہا جاتا ہے ۔ داؤد خان کو اس کے خاندان سمیت صدارتی محل میں قتل کر دیا گیا[2] ۔ اس انقلاب کے نتیجے میں نور محمد ترہ کئی نے بطور صدر (جنرل سیکرٹری ، انقلابی کونسل ) کے اقتدار سنبھالا ، جو ملک میں 1979ء میں سویت مداخلت اور سویت افغان جنگ (1979–1989) تک عہدے پر فائض رہے۔ یہ انقلاب اس خطے میں محنت کشوں، دہقانوں، نوجوانوں اور مظلوموں کی وہ واحد سرکشی تھی جس نے افغانستان سے فرسودہ قبائلیت، جاگیرداری اور سرمایہ داری کا خاتمہ کیا تھا، ایک طبقات سے پاک انسانی معاشرے کی تعمیر کا آغاز کیا تھا اور ہمسایہ ممالک میں انقلابیوں اور انقلابی تبدیلی کے لیے جدوجہد کرنے والوں میں ایک نئی روح پھونک دی تھی[3]۔
جون 1978ء نیویارک میں ایک پریس کانفرنس کے دوران میں حفیظ اللہ امین خود کہا کہ یہ قطعاً کوئی کُوپ (فوجی بغاوت) نہیں تھا بلکہ ایک انقلاب تھا جسے افغانستان کے عوام نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان کی قیادت میں برپا کیا[4]
پس منظر
[ترمیم]بیسوی صدی میں افغانستان کو پسماندگی سے نکال کر ایک جدید سماج بنانے کے لیے دو قابل ذکر کوششیں کی گئیں۔ پہلی سنجیدہ جدوجہد افغانستان کے اس وقت کے بادشاہ امان اللہ خان کی قیادت میں کی گئی۔ تیسری انگریز افغان جنگ 1919ء کے نتیجے میں افغانستان نے برطانیہ سے مکمل آزادی حاصل کر لی۔امان اللہ خان (دورِ اقتدار: 1919ء-1929ء) نے افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد اصلاحات کیں اور مغربی دنیا سے تعلقات قائم کیے۔ اصلاحات میں بنیادی تعلیم کا لازمی قرار دینا اور مغربی طرز کی دیگر اصلاحات شامل تھیں۔ 1929ء میں اسے اقتدار چھوڑنا پڑا۔ اس کے جاتے ہی تمام تر اصلاحات کو منسوخ کر دیا گیا۔1940ء کی دہائی کے اواخر میں رجعت کے بادل چھٹنا شروع ہوئے۔ پریس کو کسی حد آزادی دی گئی اور سیاسی پارٹیاں بنانے کی اجازت دی گئی۔ 1947ء میں افغانستان کے بائیں بازو کے انقلابی اور ترقی پسند نوجوانوں نے ویش زلمیان کے نام سے ایک سیاسی اور ادبی تنظیم قائم کی۔ اس کے سرکردہ رہنماؤں میں محمد رسول پشتون، گل باچا الفت، گل محمد غبار، عبد الرؤف بینوا، نور محمد ترہ کئی اور ببرک کارمل بھی شامل تھے۔ تنظیم کا ہیڈ کوارٹر قندھار میں تھ[5]ا۔ ’ولس‘ اور ’انگار‘ تنظیم کے دو جریدے تھے جبکہ افغانستان کے ایوان زیریں میں ان کے حمایتی بھی موجود تھے جو عوامی مسائل اور حکومتی نااہلی اور بدعنوانی پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔جنوری 1965ء میں نور محمد ترہ کئی کے گھر میں بائیں بازو کے تیس رہنماؤں کی میٹنگ ہوئی جس میں ایک نئی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان بنانے کا اعلان کیا گیا۔ نور محمد ترہ کئی اس کے سربراہ منتخب ہوئے۔ 1967ء میں تشکیل پانے والی پارٹی آئین کے مطابق پارٹی کی اساس مارکسزم لینن ازم کو قرار دیا گیا۔ پارٹی کے پرچے کا نام خلق (عوام) تھا[5]۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان کی حمایت کے ذریعے محمد داؤد خان نے 1973ء میں فوجی بغاوت کے ذریعے بادشاہ ظاہر شاہ کو معزول کر کے خو د اقتدار پر قبضہ کر لیا جس کے نتیجے میں پہلی افغانستان جمہوریہ معرض وجود میں آئی[6]۔صدر داؤد کو یقین تھا کہ سوویت یونین کے قریبی تعلقات اور فوجی حمایت انھیں پاکستان کے ساتھ سرحدی مسئلے کو حل میں مدد دے گی۔ تاہم داؤد، جو غیر معمولی طور پر غیر صف بندی پالیسی پر عمل پیرا تھے، داؤد نے افغانستان کی خارجہ پالیسی میں سوویت سویت مداخلت پر اسے تنقید کا نشانہ بنایاجس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان میں تعلقات خراب ہو گئے[7]۔
داؤد کی سیکولر حکومت کے دوران میں پی ڈی پی اے میں گروہ پرستی اور رقابت پیدا ہو گئی جس کی وجہ سے پارٹی دو پرچم اور خلق کے دھڑوں میں بٹ گئی۔۔ 17 اپریل 1978 کوپرچم کے ایک ممتاز رکن میر اکبر خیبر کو قتل کیا گیااگرچہ حکومت نے قتل کے خلاف مذمتی بیان جاری کیا جبکہ پی ڈی پی اے کے رہنما نور محمد ترہ کئی نے الزام لگایا کہ قتل کی ذمہ دار حکومت خودہے ، اس قتل کے بعد اندیشہ پیدا ہوا کہ حکومت پی ڈی پی اے کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اکبر خیبر کے جنازہ کے دوران میں حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرہ ہوا اور اس کے بعد جلد ہی ببرک کارمل سمیت کئی پی ڈی پی اے رہنماؤں کو حکومت کی طرف سے گرفتارکر لیا گیا تاہم حفیظ اللہ امین کوگھر میں نظر بند کیا گیا [3]۔صورت حال کو دیکھتے ہوئے حفیط اللہ امین نے خلقی فوجی افسران کو حکومت کا تختہ الٹنے کے احکامات جاری کیے۔
جمہوری جمہوریہ افغانستان کا قیام
[ترمیم]27 اپریل کی صبح کو زمینی اور فضائی فوج کے انقلابی افسران نے ایک انقلابی سرکشی کے ذریعے داؤد کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اقتدار فوری طور پر پارٹی کے حوالے کر دیا گیا۔ پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد جمہوری جمہوریہ افغانستان کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے پہلے صدر نور محمد ترہ کئی منتخب ہوئے[8]۔
انقلابی حکومت نے اپنے انقلابی فرائض کو انجام دینا شروع کیا۔ یہ افغانستان کی جدید تاریخ میں افغان سماج کو پسماندگی سے نکال کر ایک جدید سماج بنانے کے لیے امان اللہ خان کے بعد دوسری سنجیدہ جدوجہد تھی[9]۔ ایک حکم نامے کے ذریعے بے زمین کسانوں کے تمام قرضے معاف کر دیے گئے۔ مختلف حکم ناموں کے ذریعے افغانستان کی تاریخ کی سب سے وسیع زرعی اصلاحات کی گئیں[10]۔ اس وقت افغانستان کی شرح خواندگی بمشکل 10 فیصد تھی۔ مفت تعلیم اور صحت کا اجرا کیا گیا۔ چائلڈ میرج پر پابندی لگا دی گئی۔ خواتین پر جبر کا خاتمہ کیا گیا اور جنسی برابری کو تسلیم کیا گیا۔ قومی جبر کا خاتمہ کیا گیا اور محکموم قومیتوں کو محکمومی سے نجات دلا کر انقلابی حکومت میں نمائندگی دی گئی[10]۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب پ "The KGB in Afghanistan: Mitrokhin Documents Disclosed"۔ Federation of American Scientists۔ 25 فروری 2002۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 نومبر 2018
- ↑ "Mohammad Daud Khan"۔ Afghanland.com۔ 2000۔ 17 اگست 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مارچ 2018
- ^ ا ب Barnett R. Rubin (2002)۔ "The Fragmentation of Afghanistan"۔ Yale University Press۔ صفحہ: 104–105۔ ISBN 978-0-300-09519-7۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 نومبر 2018
- ↑ AP Archive (2015-07-24)، SYND 6 6 78 AFGHAN FOREIGN MINISTER HAFIZULLAH PRESS CONFERENCE ON RECENT COUP، اخذ شدہ بتاریخ 11 مارچ 2018
- ^ ا ب "ثور انقلاب آج بھی مشعل راہ ہے!"۔ The Struggle | طبقاتی جدوجہد (بزبان انگریزی)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 نومبر 2018
- ↑ "Afghanistan: 20 years of bloodshed"۔ BBC News۔ 1998-04-26۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مارچ 2018
- ↑ Jonathan Steele (2012-01-01)۔ Ghosts of Afghanistan: The Haunted Battleground (بزبان انگریزی)۔ Counterpoint Press۔ صفحہ: 64–65۔ ISBN 978-1-58243-787-3۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 نومبر 2018
- ↑ Larry Thompson (دسمبر 2009)۔ "Surviving the '78 Revolution in Afghanistan"۔ www.hackwriters.com۔ 26 جولائی 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اپریل 2011
- ↑ "The "Great Saur Revolution"۔ Workers' Liberty (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اپریل 2011
- ^ ا ب Robert D. Kaplan (1990)۔ Soldiers of God: With Islamic Warriors in Afghanistan and Pakistan۔ Knopf Doubleday Publishing Group۔ صفحہ: 115–116۔ ISBN 978-0-395-52132-8۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مارچ 2018