اخلاق احمد
اخلاق احمد Akhlaq Ahmed | |
---|---|
پیدائش | 10 جنوری 1950دہلی، برطانوی ہند |
وفات | اگست 4، 1999لندن، مملکت متحدہ | (عمر 49 سال)
اصناف | غزل، پس پردہ گلوکار |
پیشے | پس پردہ گلوکار |
آلات | گلوکار |
سالہائے فعالیت | 1973–1998 |
اخلاق احمد (Akhlaq Ahmed) ایک پاکستانی پس پردہ گلوکار تھے۔ وہ کراچی کے ایک مشہور میوزک گروپ کے رکن تھے جس کے دو دیگر اراکین پس پردہ گلوکار مسعود رانا اور اداکار ندیم بیگ تھے۔ اخلاق احمد کی پہلی فلم بطور پس پردہ گلوکار پازیب تھی جو 1973ء میں بنی۔[1]
پیدائش اور ابتدائی زندگی
[ترمیم]دہلی میں 10 جنوری 1946 کو پیدا ہونے والے اخلاق احمد 1947 میں قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کر گئے۔ ان کے تمام تذکروں میں تاریخ پیدائش 1946 ملتی ہے لیکن لندن میں واقع ان کی قبر کے کتبے پر تاریخ پیدائش 1950 لکھی ہے۔ انھوں نے 1960 کی دہائی میں کراچی اسٹیج سے فنکارانہ زندگی کا آغاز کیا۔ وہ پاکستانی فلمی دنیا کے پس پردہ گلوکاروں کی تیسری نسل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک دہائی سے بھی زیادہ جدوجہد کرنے کے بعد بالآخر ان کا گلوکار کی حیثیت سے اعتراف کیا گیا اور پہچان ملی۔ پہلی مرتبہ 1973 میں کراچی میں بننے والی فلم ”پازیب“ ( 1972 ) میں انھیں پس پردہ گلوکاری کا موقع ملا۔ انھیں یہ موقع لال محمد اور بلند اقبال المعروف لال محمد اقبال کی وجہ سے ملا۔ اس فلم کے مشترکہ فلمساز سید غفران علی شاہ اور بیگم نواب زادہ حامد علی خان اور اس کے ہدایتکار بھارت سے آئے ہوئے ’اے آر راکھن‘ تھے۔
کہانی بھی راکھن صاحب ہی کی لکھی ہوئی تھی۔ جب کہ مکالمے اور گیت فیاضؔ ہاشمی کے تھے۔ اخلاق احمد کا یہ پہلا گیت ایک مزاحیہ گانا تھا: ’او ماما میرے او چاچا میرے۔۔۔‘ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستانی فلمی دنیا میں احمد رشدی کا طوطی بولتا تھا۔ ایسے میں کسی نئی مردانہ آواز کا فلموں میں جگہ بنانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ پھر بھی اپنی محنت سے اخلاق نے تھوڑی بہت کامیابیاں حاصل کر ہی لیں۔ 1970 سے 1980 کے دوران وہ ا پنی صلاحیت کی بنا پر ایک نمایاں شناخت بنانے میں کامیاب رہے۔
بطور گلوکار شناخت
[ترمیم]فلم ”پازیب“ کے بعد اگلے سال فرینڈلی فلمز کی کامیاب فلم ”چاہت“ (1974) سے صحیح معنوں میں اخلاق احمد کی قسمت کھلی اور ایک عالم میں ان کی شہرت ہوئی۔ مذکورہ فلم کے فلمساز و ہدایتکار رحمن تھے۔ یہ خود اس وقت صف اول کے اداکار تھے۔ اس فلم کے تذکرے میں دو گیت نگاروں کے نام ملتے ہیں : اختر ؔ یوسف اور خواجہ پرویز۔ جبکہ موسیقار روبن گھوش تھے۔ اخترؔ یوسف کے خوبصورت گیت کی دھن روبن گھوش نے سادا لیکن دل موہ لینے والی بنائی۔ اور انھوں نے اسے اخلاق احمد سے نہایت عمدگی سے گوایا کہ مجھ سمیت تمام اہل وطن کے کانوں کو بہت بھلا لگا۔۔۔ جیسے ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہو : ’ساون آئے ساون جائے تجھ کو پکاریں گیت ہمارے۔.. ‘ ۔ یہ ہی وہ گیت ہے جو اخلاق احمد کا پہچان گیت بنا۔ ریڈیو پاکستان کے تمام ہی اسٹیشنوں سے یہ گیت دن میں کئی کئی مرتبہ نشر ہوتا تھا۔ یہ نغمہ اخلاق احمد کی ایک عرصے کی جدوجہد کا ثمر ثابت ہوا۔ پھر اس کے بعد تو اخلاق پر فلم نگری نے اپنے دروازے کھول دیے۔ یہ گیت اخلاق احمد کی زندگی کا ایک اہم اور حسین موڑ ہے۔
پہلی پرفارمنس، نثار بزمی سے ملاقات
[ترمیم]اسٹیج، ریڈیو اور ٹیلی وژن کے نامور موسیقار زیڈ ایچ فہیم نے بھی ایک عرصہ اخلاق احمد کے ساتھ گزارا ہے۔اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اخلاق احمد میرے ساتھ بینجو بجایا کرتے تھے۔ تب ان کے ذہن میں گانے کا کوئی تصور نہیں تھا کہ ایک دن وہ گلوکار بن جا ئے گا۔ میں گاتا اور وہ میرے ساتھ بینجو بجاتا۔ پھر ایک دن ایک چھوٹی سی محفل ہوئی جس میں اس نے پہلی مرتبہ گانا گایا۔ اس وقت کراچی میں ’پٹلو سسٹرز‘ ہوتی تھیں ( یہ بینجمن سسٹرز سے بہت ہی پہلے کی بات ہے)۔ میں ان کے ساتھ موسیقی کے پروگراموں میں شرکت کیا کرتا تھا۔ رفتہ رفتہ اخلاق احمد نے بھی ایسے پروگراموں میں بینجو بجانے کے ساتھ ساتھ رفیع صاحب کے گانے گانے شروع کیے۔میں اس کے ساتھ ہارمونیم بجاتا تھا۔ اخلاق کو بہت اشتیاق تھا کہ وہ موسیقار نثار بزمی صاحب کو اپنا گانا سنائے۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے میرے ساتھ چلنا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ بزمی صاحب کی بیٹی کی شادی آ گئی۔ ا س وقت سیدھا سادا زمانہ تھا گھر کے سامنے ہی پیلے ہرے تمبو لگ جاتے تھے۔ میں اخلاق کو وہاں لے گیا۔ ادھر اور بھی کچھ گلوکار بیٹھے تھے۔ وہاں گانا بجانا بھی ہوا۔ ہم بھی احتراماً سب کے ساتھ بجاتے رہے۔ بزمی صاحب سب کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ اخلاق نے بھی اپنی باری پر کچھ گیت سنائے اور مجھے کہنی ماری کہ بزمی صاحب سے پوچھوں کہ میرا گانا کیسا لگا؟ جب میں نے پوچھا تو بزمی صاحب بولے کہ بیٹا آپ نے رفیع صاحب کو بہت اچھا گایا۔ واقعی آپ کی آواز تو اچھی ہے لیکن میں نے ابھی تک آپ کو نہیں سنا! اخلاق مطلب نہیں سمجھا۔ پھر سمجھایا کہ آپ دوسروں کی آواز میں گا رہے ہیں۔ خود اپنی آواز میں سنائیے! وہ سمجھ گئے کہ بچہ گھبرا گیا ہے۔ پھر کہا کہ کسی وقت مجھ سے ملنا۔[2]
شہرت کا زمانہ
[ترمیم]اس کے بعد فلمسٹار ندیم جو اخلاق احمد کے اچھے دوست تھے اور ان کے ساتھ گلوکاری کی ابتدا کی تھی کے توسط سے انھیں فلم چاہت کا نغمہ ساون آئے ساون جائے گایا اور شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا۔ ایک ہی فلمی گیت نے 1974 میں اخلاق کی مانگ میں اضافہ کر دیا۔ اب فلمساز و ہدایتکار اور فلم کے ہیرو رحمن ایک گیت نگار سے اخلاق احمد کا نام لے کر ایک مقبول ہونے والے گیت کا مطالبہ کر رہے تھے۔اخلاق احمدسادہ طبیعت کا مالک ایسا آدمی تھا جسے پیسے کا لالچ نہیں تھا۔ جو کسی نے دے دیا لے لیا۔ نہایت دھیمے مزاج کا تھا۔ جب بھی کسی سے ملتا، چہرے پر مسکرا ہٹ ہوتی۔ چونکہ خود میوزیشن رہا تھا لہٰذا ساری زندگی میوزیشنوں کی بہت عزت کی۔
1975 ہو گا، اس کی فلم ”دو ساتھی“ ریلیز ہو چکی تھی۔فرینڈلی فلمز کی فلم ”دو ساتھی“ 1975 میں اخلاق احمد کا ایک گیت ’دیکھو یہ کون آ گیا، بن کے نشہ چھا گیا بے حد مقبول ہوا۔ اس فلم کے فلمساز و ہدایتکار بھی رحمن اور موسیقار روبن گھوش تھے۔
اورینٹل فلمز کی فلم ”بندش“ 1980 کی وہ پہلی اردو فلم ہے جس نے لاہور میں پلاٹینم جوبلی کی۔ اس فلم کے فلمسا ز احمد شمسی اور ہدایات نذرالاسلام نے دیں۔ اس کی موسیقی روبن گھوش نے ترتیب دی۔ ان کی موسیقی میں اخلاق احمد کا گیت سونا نہ چاندی نہ کوئی محل جان من میں تجھے دے سکوں گا،،ہر خاص و عام میں بے حد مقبول ہوا۔
فلم ایڈونچرز کے فلمساز و ہدایتکار پرویز ملک کی گولڈن جوبلی فلم ”مہربانی“ 1982 میں ریلیز ہوئی جسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ خود اخلاق کی اپنی کہانی ہے۔ اس کی کہانی علی سفیان آفاقیؔ صاحب نے لکھی اور مسرورؔ انور کے گیتوں کو ایم اشرف نے طرزوں سے سجایا۔ یہ ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جس نے گلوکار بننا چاہا مگر مواقع نہیں ملے۔ اس فلم میں اخلاق احمد کا ایک گیت قوالی کے انداز میں ریڈیو پر بہت مقبول ہوا تھا: ’کبھی خواہشوں نے لوٹا کبھی بے بسی نے مارا، گلہ موت سے نہیں ہے ہمیں زندگی نے مارا‘ ۔
پانچ منٹ اور آٹھ سیکنڈ کے اس گیت نے بھر پور تاثر چھوڑا۔ گیت نگار، موسیقار اور گلوکار کی مشترکہ کوشش کی یہ ایک کامیاب مثال ہے۔ جس کو پرویز ملک نے چار چاند لگا دیے۔ فلم ”مہربانی“ کو سامنے رکھتے ہوئے مشترکہ بھارتی فلمساز راجیش کھنہ اور کسوم نرولا اور ہدایتکار شکتی سمانتا نے فلم ”الگ الگ“ 1985 میں بنائی۔ تمام گیت آنند بخشی اور موسیقی راہول دیو برمن المعروف آر ڈی برمن نے ترتیب دی۔ اس کے نمایاں اداکار راجیش کھنہ اور ٹینا منیم تھے۔
مذکورہ فلم میں گلوکار کشور کمار کی آواز میں قوالی کے انداز میں گیت: ”کبھی بیکسی نے مارا کبھی بے بسی نے مارا، گلہ موت سے نہیں ہے مجھے زندگی نے مارا“ ہو بہو، سین بائی سین، فریم بائی فریم ’کبھی خواہشوں نے لوٹا کبھی بے بسی نے مارا، گلہ موت سے نہیں ہے ہمیں زندگی نے مارا‘ کی کاپی ہے۔ ”مہربانی“ کے ایڈیٹر زیڈ اے زلفی ہیں۔ آپ پہلے ان کا ایڈٹ کردہ گیت دیکھیں پھر اس کے فوراً بعد بھارتی فلم ”الگ الگ“ کا گیت۔ آپ پریشان ہو جائیں گے کہ بھارتی فلم کے ایڈیٹر ڈیوڈ دھون صاحب تھے۔ ڈیوڈ صاحب نے زلفی صاحب کے گیت کی فریم بائی فریم ایڈیٹنگ کی ہے۔ لیکن اس کام کے لیے پہلے گانے کے مطلوبہ شارٹ بھی تو درکار تھے۔ ”مہربانی“ کی عکاسی ریاض بخاری نے کی جبکہ
” الگ الگ“ کی ندیم خان صاحب نے کی۔ بظاہر تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارتی عکاس ندیم صاحب کو ریاض بخاری صاحب کی عکاسی کا ایک ایک فریم کاپی کرنے کا کہا گیا تھا۔ پھر بھارتی فلم ایڈیٹر ڈیوڈ صاحب کو زیڈ اے زلفی صاحب کا یہ گیت دکھا کر ایڈٹ کروایا گیا۔ مزید دلچسپ بات یہ کہ ”مہربانی“ کے ڈیزائنر اسلام شہابی کے اس گیت میں لگائے گئے سیٹ ”الگ الگ“ کے آرٹ ڈائریکٹر ٹی کے ڈیسائی کو دکھوا کر بالکل ویسے ہی بنوائے گئے۔
گیت نگار آنند ؔ بخشی صاحب نے مسرورؔ بھائی کی استھائی کا پہلا مصرع ’کبھی خواہشوں نے لوٹا کبھی بے بسی نے مارا‘ کو بدل کر ’کبھی بیکسی نے مارا کبھی بے بسی نے مارا‘ کر دیا۔ البتہ دوسرا مصرع آنندؔ بخشی صاحب نے مسرورؔ بھائی کا ہی لگایا۔ ایم اشرف کی دھن کو آر ڈی برمن نے کم و بیش ویسے ہی رہنے دیا۔ اس موازنہ پر ابھی اور بھی لکھا جا سکتا ہے لیکن مضمون طویل ہو جائے گا۔
پنجابی گیت
[ترمیم]اخلاق احمد نے کئی پنجابی فلموں میں بھی گانے گائے فلم ”باغی تے فرنگی“ ( 1976 ) برطانوی راج کے خلاف بنائی گئی ایک ہٹ فلم تھی۔ اس میں اخلاق نے مسعود رانا کے ساتھ دوگانا ریکارڈ کروایا جو خاصا پسند کیا گیا: ’جی کردا، ہن جی کردا۔فلم ”پکھے بٹیرے“ (1985 ) میں اے نیر کے ساتھ دوگانا: ’دو پکھے بٹیرے رج گئے نے۔ اس مزاحیہ گیت کو پنجابی فلموں کے عظیم گیت نگار وارثؔ لدھیانوی نے لکھاا ور وجاہت عطرے نے طرز بنائی۔ یہ ننھا اور علی اعجاز پر فلمایا گیا۔فلم ”بارش“ ( 1989 ) میں مہناز اور اے نیر کے ساتھ اخلاق احمد کا یہ گیت: ’دکھ سکھ دے وچ نال رہوو، اپنی جان نثار کرو‘ ۔ خواجہ پرویزؔ کے گیت کی طرز ایم اشرف نے بنائی۔ یہ گیت اداکارہ نغمہ، جاوید شیخ اور اظہار قاضی پر فلمایا گیا۔ایور نیو پکچرز کی جانب سے فلمساز سجاد گل اور ہدایتکار جان محمد کی فلم ”انٹرنیشنل گوریلے“ ( 1990 ) میں نورجہاں کے ساتھ دوگانا بھی ا خلاق احمد کے یادگار پنجابی گیتوں میں شمار ہوتاہے : ’پروانیا، دیوانیا۔.. ‘ ۔ اس کو وارثؔ لدھیانوی نے لکھا اور موسیقی ایم اشرف نے مرتب کی۔ اس فلم میں اداکار افضال احمد نے سلمان رشدی کا منفی کردار ادا کیا تھا۔مشہور بھارتی گلوکار سونو نگم نے 1990 کے اواخر میں اخلاق احمد کے گائے ہوئے پاکستانی فلموں کے مشہور گانے اپنی آواز میں ریکارڈ کرائے۔
فلمیں اور گیت
[ترمیم]” ساون آئے ساون جائے تجھ کو پکاریں گیت ہمارے۔.. “ فلم ’چاہت‘ ( 1974 ) گیت نگار اختر یوسف اور موسیقار روبن گھوش۔ ”اے دل اپنا درد چھپا کر گیت خوشی کے گائے جا۔.. ’‘ فلم ’پہچان‘ ( 1975 ) گیت نگار مسرورؔ انور اور موسیقار نثار نزمی۔“ رات بھر جیا مورا، مجھے کیوں ستائے۔.. ”فلم ’امنگ‘ ( 1975 ) گیت تسلیمؔ فاضلی اور موسیقی روبن گھوش۔“ دیکھو یہ کون آ گیا، دل میں نشہ چھا گیا۔.. ”فلم ’دو ساتھی‘ ( 1975 ) گیت نگار نا معلوم اور موسیقی روبن گھوش۔”ساتھی میرے بن تیرے کیسے بیتے گی۔.. “ فلم ’زبیدہ‘ ( 1976 ) گیت نگار نامعلوم، موسیقار کمال احمد۔ ”حسیں وادیوں سے پوچھو۔.. “ مہناز کے ساتھ دوگانا۔ فلم ’آئینہ‘ ( 1977 ) گیت نگار نامعلوم اور موسیقار روبن گھوش۔ ”سونا نہ چاندی نہ کوئی محل جان من میں تجھے دے سکوں گا۔.. “ فلم ’بندش‘ ( 1980 ) گیت نگار (غالباً ) تسلیم فاضلی اور موسیقار روبن گھوش۔ ”سماں وہ خواب سا سماں۔.. “ فلم ’نہیں ابھی نہیں‘ ( 1980 ) گیت نگار نامعلوم اور موسیقی روبن گھوش۔ ”چمن چمن کلی کلی ٖڈگر ڈگر گلی گلی“ فلم ’آہٹ‘ ( 1982 ) گیت نگار سعید گیلانی اور موسیقار روبن گھوش۔ ”کبھی خواہشوں نے لوٹا کبھی بے بسی نے مارا۔.. ”فلم ’مہربانی‘ ( 1982 ) بول مسرور ؔ انور اور موسیقی ایم اشرف۔
ایوارڈز
[ترمیم]فرینڈلی فلمز کی جانب سے فلمساز اور ہدایتکار رحمن کی ہٹ فلم ”چاہت“ ( 1974 ) میں پہلی مرتبہ اخلاق احمد کو نگار پبلک ایوارڈ کی جانب سے ایوارڈ دیا گیا۔ یہ خصوصی ایوارڈ تھا۔
گلوکار اخلاق احمد کو ایک خصوصی اور سات عدد با قاعدہ سال کے بہترین پس پردہ گلوکار کے نگار ایوارڈ حاصل ہوئے۔ ان میں سے 03 ایوارڈ متواتر تین سال 1982 سے 1984 تک ملے۔
پہلا نگار ایوارڈ 1974 میں فلم ”چاہت“ کے گیت پر حاصل ہوا: ’ساون آئے ساون جائے‘ ۔ گیت نگار اختر یوسف اور موسیقار روبن گھوش۔ دوسرا ایوارڈ 1980 میں فلم ”بندش“ پر ملا : ’سونا نہ چاندی نہ کوئی محل۔.. ‘ گیت نگار ( غالباً ) تسلیم ؔ فاضلی اور موسیقار روبن گھوش۔ تیسرا نگار ایوارڈ 1982 میں فلم ”مہربانی“ پر وصول کیا: ’تو ہے زندگی میں امنگ۔.. ‘ گیت نگار مسرورؔ انور اور موسیقار ایم اشرف۔ چوتھا ایوارڈ 1983 میں فلم ”نادانی“ میں ملا: ’لوٹا قرار میرے دل کا۔
گیت نگار ریاض الرحمن ساغرؔ اور موسیقار ایم اشرف۔ پانچواں نگار ایوارڈ 1984 میں فلم ”دوریاں“ پر دیا گیا: ’بس اک تیرے سوا کوئی نہیں ہے میرا۔.. ‘ گیت نگار نامعلوم اور موسیقار روبن گھوش۔ چھٹا ایوارڈ 1986 میں فلم ”قاتل کی تلاش“ گیت کے بول اور شاعر نامعلوم اور موسیقار وجاہت عطرے۔ ساتواں نگار ایوارڈ 1987 میں فلم ”کندن“ میں دیا گیا: ’کھلونے تیری زندگی کیا‘ گیت نگار خواجہ پرویز اور موسیقار کمال احمد۔ آٹھواں ایوارڈ 1990 میں فلم ”بلندی“ پر ملا : گیت کے بول اور گیت نگار نامعلوم اور موسیقار ایم ارشد۔
اخلاق احمد کے گائے ہوئے فلمی گیتو ں کی تعداد لگ بھگ 100 ہو گی۔ ان کے بعض تذکروں میں یہ تعداد 117 بھی ملتی ہے جو 1973 سے لے کر 1998 تک 86 فلموں میں پر محیط ہے۔ ان کا آخری گیت فیض پروڈکشنز کی فلم ”نکاح“ ( 1998 ) کاہے : ’یہ دل ہے دیوانہ تیرے پیار کا۔.. ‘ ۔ اس فلم کے فلمساز شہزاد رفیق اور ہدایات سنگیتا کی اور موسیقی ایم ارشد کی تھی۔ مذکورہ فلم نے لاہور میں پلاٹینم جوبلی کی۔ یہاں کا مین سنیما ’رتن‘ تھا جو اب زمانے کے سرد و گرم کی وجہ سے قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔[3]
اخلاق احمد نے اپنی زندگی کے آخری چند سال کینسر سے مقابلہ کرتے ہوئے گزارے۔ اس بیماری کے ہوتے ہوئے بھی انھوں نے گانا جاری رکھا اور 1998 تک گاتے رہے۔ وہ لندن میں اپنا علاج کرانے گئے تھے جہاں پر 04 اگست 1999 کو زندگی کی 53 بہار دیکھتے ہوئے راہی ملک عدم ہوئے۔ اللہ تعلیٰ اس کی مغفرت کرے۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "Akhlaq Ahmed"۔ Anisshakur.tripod.com۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 مارچ 2015 , Biography of Akhlaq Ahmed, Retrieved 22 Dec 2015
- ↑ "گلوکار اخلاق احمد"
- ↑ "گلوکار اخلاق احمد"